فنا ایک کیفیت ہے یا ایک حال ہے، جو اپنی حقیقت کو ذات خداوندی کے سامنے حاضر کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔

فنا کے تین درجے ترمیم

اعلیٰحضرت کے جدِّ مرشِد حضرت سیِّد شاہ آلِ اَحمد اچھے میاں ’’ آداب ِسالکین ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں! فنا کے تین درجے ہیں: (1) فَنافِی الشَّیخ (2) فَنافِی الرَّسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (3) فَنافِی اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ مولانا عبد الرحمٰن جامی کی ”نَفْحاتُ الانَس ‘‘ کے حوالے سے ذکْر کرتے ہیں کہ عام ولایت تو تمام ایمان والوں کو حاصل ہے مگر خاص ولایت ، (اَہلِ طریقت) میں ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے۔ جو فَنافِی الشَّیخ کے ذریعے فَنافِی الرَّسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہو کر فَنافِی اللہ ہو گئے۔[1]

فنا کی کیفیت ترمیم

فنا سے جڑی ہوئی کیفیت بقاء بھی ہے جیسے فنا عن المعاصی۔ اور بقا الطاعتہ گناہوں سے فانی ہوجانا اور اطاعت پر باقی رہنا یا جہالت سے فنا حاصل کرنا اور الٰہی معرفت سے بقا حاصل کرنا متکلمین اسلام کے مطابق فنا اس کارروائی کا نام ہے جس میں شے کے اوصاف معدوم ہو جاتے ہیں اور بقا انہی اوصاف میں دوام حاصل کرنا ہے۔[2] فنا اس بات سے عبارت ہے کہ باطن پر ذات حق کے غلبہ ظہور کے سبب ہمارے پاس اس کی ذات کے سوا کوئی شعور باقی نہ رہے اور فنا کے باقی نہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس عالم بے شعوری کا شعور بھی نہ رہے۔[3]

صوفیاکی اصطلاح میں ترمیم

صوفیہ کا بیان ہے کہ ممکنات کا وجود اور لوازم وجود اور تمام کمالات ممکن کے ذاتی (از خود) نہیں بلکہ مرتبۂ وجوب سے مستفاد اور باری تعالیٰ کی طرف سے ایک مستعار ودیعت ہے ورنہ بذات خود ہر ممکن ان کمالات سے خالی ہے اور اس آیت کا اقتضاء ہے کہ امانت کو امانت والے کے سپرد کردینا اور اپنی ذات کو اس کا مالک نہ قرار دینا واجب ہے اگر بادشاہ کسی بھنگی کو خلعت فاخرہ اور لباس امیرانہ پہنا دے تو بھنگی کی یہی دانشمندی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ویسا ہی تصور کرے جیسے پہلے تھا اور خلعت کو بادشاہ کی عاریت سمجھے۔ صوفی پر بھی جب اس تصوری حالت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ اپنے کو اپنی ذات کے اعتبار سے معدوم اور فاقد الوجود سمجھتا ہے اور تمام کمالات سے خالی جانتا ہے بلکہ اپنے کو تمام مفاسد اور شرور کا مبداء خیال کرتا ہے یہی مرتبۂ فنا ہے اس سے آگے ایسی کھوئی کھوئی حالت بھی ہوجاتی ہے کہ اپنی ذاتی فنا اور کمالات سے خالی ہونے کا بھی اس کو خیال نہیں رہتا‘ یہ مرتبہ فناء الفناء کا ہوتا ہے لیکن فنا ذاتی کے تصور کے ساتھ کبھی یہ خیال بھی شہودی مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے کہ میرا وجود ہے میں موجود ہوں مگر میری یہ ہستی اور ہستی کے صفات میرے نہیں اللہ تعالیٰ نے بطور عاریت مجھے عطا فرمائے ہیں۔ ذات خداوندی اور صفات الٰہیہ کی وجہ سے میری ہستی اور ہستی کی صفات کی بقاء ہے (گویا واجب اصل ہے اور ممکن اس کا عکس) یہ مرتبہ بقاء (باللہ) کا ہے یہی مطلب ہے اس فرمان خداوندی کا جس کو حدیث قدسی میں بیان کیا گیا ہے کہ میں مؤمن کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے‘ الخ۔

آخری منزل ترمیم

اسی مرتبۂ فنا و بقاء کا نام صوفی کی نظر میں ادائے امانت ہے اس مرتبہ پر پہنچنے کے بعد کوئی صوفی تصور بھی نہیں کر سکتا ہے کہ خود وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے کیونکہ اس کو اپنا نفس معدوم الوجود اور تمام کمالات سے خالی نظر آتا ہے ہاں اللہ نے جو فضائل و کمالات عطا فرمائے ہیں ان کو تذکرۂ انعام کے طور پر بیان کرنا اس کے لیے جائز ہوتا ہے کیونکہ کوئی فضیلت اس کی ذاتی نہیں ہوتی ہر کمال اور فضیلت کا رجوع اللہ کی طرف ہوتا ہے پس کسی فضیلت کے ذکر سے مراد ہوتا ہے اللہ کی عنایت کا اظہار اور کمال خداوندی کا بیان۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. آداب ِ مرشد کامل ، ص125
  2. عصر جدید اور مسائل تصوف، صاحبزادہ عبد الرسول صفحہ86
  3. لوائح۔ ،عبد الرحمن جامی،صفحہ 26،تصوف فاؤنڈیشن لاہور1999ء
  4. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی ،سورۃ النساء58