فیروز دیلمی
فیروز بن الدیلمی جنہیں صرف الدیلمی بھی کہا جاتا ہے۔
فیروز دیلمی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
وفات | سنہ 673ء یمن |
شہریت | ساسانی سلطنت خلافت راشدہ |
اولاد | ضحاک بن فیروز دیلمی |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | فتنۂ ارتداد کی جنگیں |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمنام فیروز، ابو عبد اللہ کنیت، نسلاً عجمی تھے، حمیری قبائل کے ساتھ رہتے تھے۔
فیروز الدیلمی
ترمیمآپ حمیری فارسی ہیں اور ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں کسریٰ نے سیف بن زی یزن کے ہمراہ یمن بھیجا۔ جنھوں نے حبشیوں کو نکال کر یمن پر قبضہ کیا اور صنعاء میں رہے۔ جب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا علم ہوا تو حاضر خدمت ہو کر اسلام لائے۔ آپ نے یمن میں اسود عنسی مدعی نبوت کو قتل کیا، یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات سے بالکل قریب ہوا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یمن میں وفات پائی۔ آپ سے ضحاک بن فیروز دیلمی اور عبداللہ نے روایات لیں۔[1] بعض محدثین کہتے ہیں ہمیں فیروز بن الدیلمی نے روایت کی اور بعض صرف الدیلمی ہی کہتے ہیں دونوں سے یہی شخصیت مراد ہوتی ہیں۔[2]
اسلام
ترمیمان کے اسلام کا زمانہ متعین طور سے نہیں بتایا جا سکتا،ایک وفد میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوئے۔ قبولِ اسلام کے وقت دو حقیقی بہنیں فیروز کے عقد میں تھیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا، ان میں سے ایک کو رکھو اور دوسری کو الگ کردو- صنعاء میں انگور کی بڑی پیداوار تھی اور اس کی شراب بنتی تھی، ان کے اسلام لانے کے وقت شراب حرام ہو چکی تھی، اس لیے آنحضرتﷺ سے پوچھا "یا رسول اللہ! ہمارے ملک میں انگور کی کثرت ہے، لیکن شراب حرام ہو چکی ہے، اب اس کو کس مصرف میں لایا جائے" فرمایا "انھیں خشک کر لیا کرو" عرض کیا "خشک کرنے کے بعد کیا کریں" فرمایا "صبح کو بھگو دیا کرو اور شام کو پی لیا کرو اور شام کو بھگو کر صبح کو پی لیا کرو"، انگور کا مسئلہ حل کرنے کے بعد عرض کیا "یا رسول اللہ! آپ کو معلوم ہے کہ ہم کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں، آپ کس کو ہمارا ولی بناتے ہیں" فرمایا "خدا اور رسول کو" عرض کیا "یا رسول اللہ ! یہ ہمارے لیے بس ہے"۔[3]
اسود عنسی کے قتل میں شرکت
ترمیممشہور مدعیِ نبوت اسود عنسی کی شورش کو دبانے کے بعد اس کے کامل استیصال کے لیے قیس بن ہبیرہ کی ماتحتی میں جو مہم روانہ کی گئی تھی، اس میں فیروز بھی تھے انکا شمار اسود عنسی کے قاتلوں میں ہے، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قیس نے قتل کیا تھا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ فیروز قاتل تھے،کچھ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ قتل فیروز نے کیا تھا، لیکن سرقیس نے تن سے جدا کیا تھا، حضرت عمرؓ ، اسود کے قتل کا سہرا فیروز کے سر باندھتے تھے اور فرماتے تھے، اس شیر نے قتل کیا ہے (فتوح البلدان بلاذری:112). بہرحال اگر فیروز نے تنہا قتل نہیں کیا، تو اس کے قاتلوں میں ضرور تھے، ولا خلاف أن فيروز الديلمي ممن قتل الأسود بن كعب العنسي المتنبي (استیعاب:2/535) اسود کے قتل کی خبر آنحضرتﷺ کی وفات سے چند روز پیشتر مدینہ میں آگئی تھی اور آپ کو اس پر بڑی مسرت تھی، ایک دن صبح سویرے آپ نے فرمایا کہ کل مبارک اہل بیت کے ایک مبارک فرد نے اسود کو قتل کیا ہے۔
وفات
ترمیمحضرت عثمان کے عہدِ خلافت میں وفات پائی۔ [4]
فضل وکمال
ترمیمان سے ان کے لڑکے ضحاک، عبد اللہ اور سعید نے روایت کی ہے۔ [5]