قاضی ارتضا علی خان

جنوب ہند کے مشہور قاضی اور عالم

شیخ علامہ علی بن احمد بن مصطفی عمری گوپاموی جو قاضی ارتضا گوپاموی سے مشہور ہیں اپنے زمانے میں مدراس بڑے علماؤں میں سے تھے ۔ آپ بیک وقت نحوی ، ادیب ، منطقی اور دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ میں کامل دسترس رکھتے تھے[1]۔

قاضی ارتضا علی خان
معلومات شخصیت

ولادت :

ترمیم

قاضی صاحب لکھنو کے علاقے گوپامئو میں 1198ھ میں پیدا ہوئے[2] ۔

تعلیم:

ترمیم

ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی ، پھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لکھنؤ گئے اور وقت کے علما و فضلا کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ۔ لکھنؤ میں آپ نے سات سال قیام کیا ، بعد ازاں سندیلہ کا سفر کیا ؛ جہاں آپ نے مولوی حیدر علی بن حمد اللہ سندیلوی سے منطق ، فلسفہ اور کلام کا درس لیا ۔ سندیلہ میں پڑھنے کے بعد بھی تشنگی بجھی نہ تھی ؛ جس کو بجھانے کے لیے آپ نے راہ علم میں ایک آخری سفر بلگرام کا کیا جہاں آپ نے شیخ ابراہیم ملباری سے حدیث شریف پڑھی ۔ بلگرام میں آپ سات سال مقیم رہے پھر وطن اصلی کا قصد کیا ۔ قیام بلگرام کے دوران شیخ نصر الدین سعدی بلگرامی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے[2] ۔

درس وتدریس:

ترمیم

1225ھ میں مدراس کا سفر کیا جہاں آپ کے والد محترم قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز تھے اور ایک زمانے تک درس وتدریس کرتے رہے ، 1230ھ میں منصب افتا پر فائز ہوئے اور 1235ھ میں چتوڑ کے قضا کا عہدہ سنبھالا اور 1244ھ میں جنوب ہند کے سب سے بڑے قاضی بن گئے [3]۔

وفات:

ترمیم

1270ھ میں حج و زیارت کے لیے گئے اور واپسی پر مقام حدیدہ میں 5 شعبان المعظم کو انتقال فرمایا[3]۔

تصانیف:

ترمیم
  • تصریح المنطق
  • نقود الحساب
  • منحۃ السراء في شرح الدعاء
  • شرح قصيدة البردة
  • ديوان فارسی
  • حاشيۃ على مير زاهد ملا جلال
  • حاشيۃ على مير زاهد شرح المواقف
  • حاشيۃ على مير زاهد
  • حاشيۃ على شرح هدايۃ الحكمۃ
  • الغفول في اثبات ايمان آباء الرسول
  • النفائس الارتضائيۃ
  • الفوائد السعديۃ في السلوک
  • الفرائض الارتضائيۃ

حوالہ جات

ترمیم
  1. عمر رضا کحالہ۔ معجم المؤلفین۔ بیروت: دار احیاء التراث العربی۔ ج 9۔ ص 36
  2. ^ ا ب عبد الحی راے بریلوی۔ نزہۃ الخواطر۔ بیروت: دار ابن حزم۔ ج 7۔ ص 1040
  3. ^ ا ب عبد الحی راے بریلوی۔ نزہۃ الخواطر۔ بیروت: دار ابن حزم۔ ج 7۔ ص 1041