قاضی دوست محمد صدیقی
قاضی دوست محمد صدیقی بلبلِ سندھ شہباز خطابت ، لحن داودی ، ترجمان اہلسنت سے معروف ہیں۔
ولادت
ترمیمقاضی دوست محمد صدیقی المعروف بلبل سندھ کی ولادت سندھ کے شہر شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کی چھوٹی سی بستی ’’گوٹھ ترائی ‘‘کے علمی خاندان ’’صدیقی قاضی ‘‘میں مولانا محمد بقا صدیقی کے گھر 1918ء کو ہوئی ۔ اس خاندان نے بے شمار علما ء فضلاء و اطباء پیداکئے ، ۔ [1]
تعلیم و تربیت
ترمیمبلبل سندھ نے شاہ محمد (سندھ ) عبد الواحد ( کوٹ مٹھن شریف ) ہارون آباد (ضلع بہاولنگر ) میں شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفٰی الازہری ؒ (شیخ الحدیث دار العلوم امجد یہ کراچی ) مدرسہ انوارالعلوم ملتان میں غزالی زمان رازی دوران میں علامہ سید احمد سعید کاظمی محدث ملتانی ؒ کے زیر سایہ کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی ۔ غالبا علامہ کاظمی ؒ کی تحریک پر امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی ؒ کی قائم کردہ درسگاہ جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف ( انڈیا) مزید تعلیم کے لیے تشریف لے گئے ، وہاں نواسہٗ اعلیٰ حضرت، اما م معقولات و منقولات علامہ مفتی تقدس علی خان رضوی ؒ ( جو بعد میں سندھ تشریف لائے اور جامعہ راشدیہ درگاہ شریف پیر جو گوٹھ میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے کے حضور زانوئے تلمذ طے کیے۔ اس کے بعد پاکستان تشریف لائے اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں داخلہ لیا اور محدث اعظم پاکستان علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد رضوی ؒ کے پاس درس نظامی کی اور دستار فضیلت باندھی ۔
بیعت
ترمیمآپ کو بچپن ہی سے اما م العارفین ، غوث العالمین ، غیاچ المسلمین مجدد بر حق سید محمد راشد پیر سائیں روضے دہنی سے عقیدت و محبت گھٹی میں ملی ہوئی تھی اسی محبت کی خاطر آپ نے حضرت قبلہ عالم کے سلسلہ عالیہ میں بیعت ہونا پسند کیا اور آپ ہی کے خلیفہ حضرت سید محمد حسن شاہ جیلانی ؒ ( بانی درگاہ بھر چونڈی شریف ) کے سجادہ نشین شیخ طریقت مجاہد اہل سنت حضرت پیر عبد الرحمن قادری ؒ کے ہاتھ پر سلسلہ عالیہ قادر یہ راشدیہ میں بیعت ہونے کی سعادت حاصل کی ۔
تصنیف و تالیف
ترمیمعارف باللہ ، سندھ کے عوامی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی قادری ؒ کے صوفیانہ کلام پر مشتمل دیوان ہے جس کا نام ’’شاہ جورسالو ‘‘ہے ۔ اس میں سے اپنی پسند کے ایک سوابیات(شعر ) کی تلخیص’’گلدستہ عشق ‘‘ کے نام سے مرتب کی ،جسے بعد میں نیشنل بک اسٹور لاڑکانہ نے شائع کیا۔ ایک سوابیات آپ کو حفظ تھے جس کو ترنم سے پڑھ کر اپنی تقریروں کو چارچاند لگاتے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی تصنیف سامنے نہیں آئی ۔
خطابت
ترمیمخطابت مولانا بلبل سندھ کی پہچان تھی ، مولانا سحر انگیز خطابت کے سبب پیران عظام کے محبوب اور اہلسنت و جماعت میں مقبول اور علما کی شان تھے ۔ قدرت نے مولانا کو حاضر جوابی ، فن خطابت ، خوش الحانی ، طرز بیانی ، گوہر روانی اور فصیح لسانی میں کامل قوت و حافظہ عطا فرمایا تھا ۔ ہر مو ضوع پر بولنے اور موضوع کو نبھانے کا خوب سلیقہ تھا، رد فرقہ باطلہ ان کا خاص موضوع تھا ،آپ تکمیل تعلیم کے بعد اسکول میں عربی کے استاد مقرر ہوئے ، جوں جوں سندھ کے حالات سے واقفیت ہوئی تو محسوس کیا کہ سندھ میں وہابیت پر نکال رہی ہے ۔ دوسری طرف سندھ کے عوام الناس بالکل سیدھے سادھے ہیں ، انھیں ان بھیڑیوں کے حملہ سے بچانا نہایت ضروری جانا اس لیے عملی زندگی میں قدم بڑھایا، نوکری کی قربانی دی ، خطابت کے لیے اپنے کو وقف کیا اور خارزاروں پر قدم رکھا اسی روز سے وصال تک احقاق حق و ابطال باطل میں مصروف رہے ۔ لیل و نہار شہر شہر ، نگر نگر، قریہ قریہ، بستی بستی اپنے خطاب سے لوگوں کے قلوب میں عشق مصطفٰی کی شمع روشن کی ، اہل سنت کو بیدار کیا، وہابیت دیوبند یت اور بد مذہیت کے فتنے سے آگاہ کیا، ان کی رسول دشمنی ، گستاخیاں، بے باکیاں ، بے ادبیاں ، مکرو فریب اور تقیہ بازی سے سندھ بھر کے عوام الناس کو خبر داررکھا ۔ امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒکے علم و فضل سے اہل سندھ کو رو شناس کیا۔وہابیت دیوبندیت شیعیت، غیر مقلدیت، قادیانیت وغیرہ کے رد میں مولانا کا جواب نہیں۔
بلبل سندھ
ترمیمسندھ باب الا سلام ہے اس لیے سندھ کی زبان عشق مصطفٰی ہے اور مولانا باغ مصطفٰی میں عشق مصطفٰی ﷺ کے گیت ترنم و عقیدت سے گنگناتے تھے اسے لیے بلبل باغ مصطفٰی ہوئے یعنی بلبل سندھ ۔ مولانا احمد بخش بھٹو نے بتایا کہ مولانا صاحب کو یہ خطاب شیخ العرب والعجم ، فقیہ اعظم ، امام اہلسنت علامہ مفتی پیر محمد قاسم مشوری ؒ الباری (بانی درگاہ مشوری شریف ) نے اپنی زبان فیض ترجمان سے مرحمت فرمایا۔ اس کے بعد ’’بلبل سندھ ‘‘ آپ کے نام کا جزبن گیا ۔ اور فلک شگاف نعرے ’’ بلبل سندھ زندہ باد ‘‘ بلند ہونے لگے ۔
وصال
ترمیمیکم رجب المرجب 1407ھ؍2،مارچ 1987ء بروز پیر شام کے پونے تین بجے مدرسہ انوارالعلوم کندھ کوٹ ( ضلع جیکبآباد سندھ ) میں 69 سال کی عمر میں وصال کیا جامع مسجد عثمانیہ متصل درگاہ شریف مخدوم محمد عثمانیہ قریشی ؒ کے روضہ شریف میں مدفون ہوئے جہاں آپ کا مزار شریف مرجع عام و خاص ہے ۔[2]