قاضی غلام جیلانی نقشبندی
قاضی غلام جیلانی نقشبندی سلسلہ نقشبندیہ کے روحانی بزرگ مولانا سراج الدین موسی زئی کے خلیفہ خاص تھے۔
قاضی غلام جیلانی نقشبندی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | (1285ھ بمطابق 1868ء) |
وفات | (24 ذوالقعد 1348ھ بمطابق 23 اپریل 1930ء) |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
سلسلہ | نقشبندیہ |
مرتبہ | |
مقام | شمس آباد اٹک |
پیشرو | مولانا سراج الدین |
تعارف
ترمیممولانا قاضی غلام جیلانی نقشبندی کی ولادت 1285ھ بمطابق 1868ء میں شمس آباد ضلع اٹک میں ہوئی۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام قاضی نادر دین تھا۔ آپ کے والد محترم قاضی نادر دین اپنے وقت کے متبحر عالم دین اور رئیس القلم تھے۔ قاضی نادر دین ہندی زبان کے بہترین شاعر تھے۔ شمس آباد کی عوام انہی سے سے نواشت و خواند سیکھی۔ ان کی دینی و علمی درسگاہ پندنامہ بطرزسی موجود ہے۔ قاضی غلام جیلانی کا تعلق مشوانی سعادات سے تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب خواجہ بندہ نواز گیسودراز سے جا ملتا ہے۔ آپ کے خاندان کے لوگ گنگرے کے پہاڑی علاقے قریب و جوار میں آباد ہیں۔ معرکہ بالا کوٹ 1246ھ کے بعد سکھوں نے مقامی آبادیوں پر ظلم ڈھانے لگے تو آپ جد امجد قاضی جنگ باز قصبہ نقارچیاں متصل غازی سے ترک سکونت کر کے شمس آباد ضلع اٹک میں رہائش پزیر ہو گئے۔
تعلیم
ترمیمقاضی غلام جیلانی نے ابتدائی کتابیں اپنے علاقے کے جید علما سے پڑھیں۔ اس کے بعد مدرسہ عالیہ رامپور میں داخل ہو کر مولانا ابوطیب مکی اور مولانا منور علی کے سامنے زانوے تلمذ طے کر کے اسی مدرسہ سے سند فضیلت حاصل کی۔
درس و تدریس
ترمیمقاضی غلام جیلانی نے سند فضیلت حاصل کرنے کے بعد مدرسہ رامپور میں مدرس مقرر ہوکر تدریس کے فرائض سر انجام دینے لگے۔ بعد ازاں مولانا کرامت علی جونپوری رحمته الله علیہ کے مسلسل تبلیغ و ارشاد سے وابستہ ہو کر بنگال چلے گئے اور وہاں تبلیغ وارشاد میں مصروف رہے۔ مولانا کرامت کے صاحبزادے و خلیفہ اعظم مولانا عبد الاول جونپوری نے آپ کو محی الدین کا لقب عطا فرمایا تھا۔ آپ کو خدا پاک نے وعظ کرنے میں وہ دسترس اور کمال عطا کیا تھا کہ سامعین کے دلوں پر آپ کی بات کا اس قدر اثر ہوتا تھا کہ وہ مست و مخمور ہو جاتے تھے۔
بیعت و خلافت
ترمیمقاضی غلام جیلانی سلسلہ نقشبندیہ میں مولانا سراج الدین موسی زئی شریف سے صاحب و مجاز و ارشاد تھے۔ آپ اپنے نام کے ساتھ نقشبندی مجددی لکھتے تھے۔
زیارت حرمین
ترمیمقاضی غلام جیلانی 1904ء میں حج بیت اللہ شریف کی ادائیگی اور زیارت روضہ رسول سے مشرف ہونے کے لیے حجاز مقدس تشریف لے گئے۔ آپ نے وہاں پرشیخ الدلائل مولانا عبد الحق سے الحزب الاعظم اور دیگر وظائف کی اجازت حاصل کی۔
تصانیف
ترمیمقاضی غلام جیلانی کے جس طرح اللہ تعالی نے وعظ میں تاثیر رکھی تھی اسی طرح زور قلم سے دینی مسائل کو سلجھانے کا بھی خدا پاک نے ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ نے تقریبا 50 کے قریب کتابیں تحریر فرمائی ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
- جامع التحریری حرمت العنا والمز امیر
- عذاب شریت دارد
- تیخ غلام گیلانی (برگردن قادیانی)
- قول مقبول دررد قادیانی مجہول بطريق المنطق والعقول
- جواب حقانی دررد بنگالی قادیانی(بنگال کا قصبہ برہمن باریہ قادیانیوں کا مرکز تھا اسی مرکز کے کرتا دھرتا لوگوں کے بارے میں یہ رسالہ ہے)
- بديع الکلام
- فتوی فتاح الجنت تخیتہ الہالک
- راحت الا فکار
- ظہور الشفقت
- حق الایضاح
وصال
ترمیممولانا قاضی غلام جیلانی کا وصال 24 ذوالقعد 1348ھ بمطابق 23 اپریل 1930ء کو ہوا۔ آپ کا مزار شمس آباد ضلع اٹک میں مرجع خلائق ہے۔
اولاد
ترمیممولانا قاضی غلام جیلانی نقشبندی کی اولاد میں چھ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھی۔ آپ کے صاحبزادوں کے نام یہ ہیں۔
- قاضی عبد السلام
- قاضی نور السلام
- قاضی انوار الحق
- قاضی منظور الحق
- قاضی محمد زاہد
- قاضی محمد طاہر [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 492 ، 493