پاکستان کے قدیم ترین باشندوں کا زمانہ یہی سمجھنا چاہیے۔ جب وادی سواں اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں کثیر تعداد میں رہتے تھے۔ انسانوں کی کثرت کا اندازہ ان بے شمار ہتھیاروں کی موجودگی سے ثابت ہوتا ہے جو اس علاقے میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے مدفون ملے ہیں۔ یہ انتہائی نزدیکی زمانے کا وسط ہے اور چار لاکھ سال قبل کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے میں کشمیر اور پنجاب میں دوسری برف بندی ہوئی۔ علاقہ پوٹھوہار کی وادی سواں میں جو پتھر کے اوزار ملے ہیں، جنہیں قبل از سواں صنعت کہا جاتا ہے، اسی دوسری برف بندی کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی زمانے کے ہاتھی کی کچھ مجحر ہڈیاں بھی ملی ہیں۔ یہ اوزار کلر، ،لک پورا، چومکھ اور دریائے سواں کے نزدیک دیگر مقامات سے ملے ہیں ۔

وادی سواں کی پاکستانی جغرافیہ دانوں اور مورخین نے واضع حد بندی تو نہیں کی ہے۔ لیکن اس سے تقریباً وہ علاقہ مراد ہے جو دریائے سواں کے طاس میں واقع ہے۔ دریائے سواں سندھ کا معاون دریا ہے اور راول پنڈی کے قریب بہتا ہے۔ عملی طور پر وادی سواں ضلع راولپنڈی، ضلع اٹک، ضلع جہلم، ضلع ہزارہ اور ضلع سرگودھا پر مشتمل سمجھنا چاہیے ۔

قبل از سواں صنعت کے حجری اوزار بڑے حجم کے ہیں۔ یہ پتھر کے قدرتی ڈھیلوں ( سنگریزوں ) کو ایک ہی طرف سے توڑ کر بنائے گئے ہیں اور ان کو مزید تراشہ نہیں گیا ہے۔ یہ سخت پتھر سے بنائے گئے ہیں جن کی تراش خراش خاصا مشکل کام ہے۔ ان کے کنارے بعض اوقات کثرت استعمال سے گھس چکے ہیں یا شاید کچھ اوزار کھلی فضا میں اور زیر زمین پڑے پڑے قدرتی طور پر متاثر ہوئے ہوں۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ گویا قدرتی چٹان کے بڑھے حصے کو توڑ کر چھلکا سا اتارا گیاہو۔ پھر اس چھلکے کو مزید چند ضربوں سے تراش کر اوزار بنالیا ہو۔ یہ اوزار عموماً ٹوکہ یا بغدا ہیں،جس سے اس عہد کا انسان چیزوں کو کاٹنے کا کام لیتا تھا۔ جیسے قصاب اپنے بغدے سے گوشت کے بڑے ٹکڑے کاٹتا ہے۔ اس ٹوکے میں بعض اوقات تو قدرتی سطح کا کچھ حصہ ہے اور بعض اوقات وہ بھی تراشیدہ ہے۔ بعض اوقات اس کی شکل دستی کلہاڑے کے قریب آجاتی ہے۔ ماہرین نے پوٹھوہارمیں انسان کے تخلیق کردہ اس حجری ٹوکہ کو بعد میں پاکستان میں بننے والے حجری دستی کلہاڑے اور جدید آہنی دستی کلہاڑے کی ابتدائی شکل قرار دیا ہے ۔

پتھروں کے قدیم ترین اوزاروں کی ماہرین آثار قدیمہ نے جو تقسیم کی ہے اس میں پہلی تقسیم مغز (Core)اور چھلکا( Flake) اوزار کی ہے۔ یعنی ایک پتھر کو لے کر اس پر سے فالتو پتھر ہٹاتے تھے کہ آخر میں اصل پتھر نے مطلوبہ اوزار کی شکل اختیار کرلی۔ یہ طریق کار پتھر کی مجسمہ سازی کے فن کی ابتدائی شکل ہے۔ یہ مغز پتھر کے اوزار ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ کہ کسی بڑے پتھر کو لے کر اس پر کوئی دوسرا پتھر مار کر اس کا ایک بڑا چھلکا اتار لیا۔ پھر اس چھلکے کی مزید تراش خراش کرکے اسے اوزار میں ڈھال لیا۔ ایسا کرنے کا مقصد غالباً یہ ہے کہ اس میں کم از کم ایک جانب لمبی تیز دھار مل جاتی تھی۔ قدیم پاکستان ( وادی سواں کی قبل از سواں صنعت ) کے حجری اوزاروں کی بعض ماہرین نے ایک تیسری قسم بھی بتائی ہے۔ جو ٹوکا اوزاروں (Chopping Tools) پر مشتمل ہے۔ یہ خاص طور پر ایشیائی صنعت ہے جو افریقہ اور یورپ میں نہیں ملی ۔

اگر ان اوزاروں کے ساتھ کہیں کوئی انسانی ڈھانچہ ملا ہوتا تو اس دور کے انسان کی عملی زندگی کی تصویر بنانا آسان ہوتا۔ لیکن ہم تک جو اوزار پہنچے ہیں، ان کی مدد سے اس انسان کا ایک قدرتی خاکہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس خاکے میں رنگ بھرنا اس وجہ سے ممکن ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اس انسان کے مجحرات ایشیائ کے دوسرے علاقے میں ملے ہیں۔ مثلاً جاوا اور چین وغیرہ میں۔ ایشیائ کے یہ مجحرات جو پاکستان کے ہمسایہ یا قریبی علاقوں سے ملے ہیں اور قبل از وقت صنعت کے اوزار اور دریافت شدہ قدیم پوٹھوہار مانس کے مجحرات مل کر اس علاقے میں انسان کے ارتقائ پر روشنی ڈالتے ہیں ۔

قبل از سون صنعت کے زمانے ( چھ لاکھ سال قبل ) کے انسان کی دو شکلوں میں واضح امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ اس میں قدیم انسان ( PALAEOANTHROPIC) اور دوسری جدید انسانی شکل( NEOANTHROPIC) ہے۔ ان دونوں انسانوں کی جسمانی ساخت میں نمایاں فرق ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان دونوں قدیم انسانوں کے مشترکہ جد امجد کا بنیادی زمانہ ان سے نہایت قدیم ہے۔ قدیم انسانی شکل کی کھوپڑیاں جدید انسان سے مختلف اور عام انسانی مانسوں ملتی جلتی ہیں ۔

یورپ میں جدید انسانی شکل کو مغز پتھر کے اوزار کا خالق سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ قدیم انسانی شکل کو پاکستان کی ٹوکا اوزار صنعت کا خالق تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر اس تجزیہ کو تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر قبل از سواں صنعت کا انسان قدیم انسانی شکل کا انسان تھا۔ جس کا ہم عصر جاوا میں پتھے کن تھروپس ہے اور چین میں اس کا ہم عصر چوکوتیان کا مجحر انسان ہے۔ جسے پیکنگ انسان کہتے ہیں۔ شین میں گاری QUARTZITE پتھر کے بنے ہوئے کھردرے اوزار بھی ملے ہیں۔ جو پاکستان کے اس دور کے اوزاروں سے ملتے جلتے ہیں۔ یہ شواہد اس بات کا خاصہ ثبوت ہیں کہ قبل از سون صنعت کا خالق پاکستان میں بسنے والا انسان قدیم مانسی انسان تھا۔ پیکنگ انسان کے مقابلے پر اس کا نام پوٹویار انسان رکھنا مناسب ہوگا ۔

ڈیڑ ھ کروڑ سال قبل اسی علاقے میں پوٹھوہار مانس کا یہ جانشین پاکستان میں آج سے چھ لاکھ سال قبل آباد تھا اور پتھر سے ٹوکا اوزار بناتا تھا۔ یہ نچلا قدیم حجری دور ہے۔ پاکستان کے ان اوزار سے بہت کم مماثل اوزار جاوا، چین اور بھارت کے قبضے ہوشنگ آباد ضلع جبل پور میں ملے ہیں۔ جو دریائے نربدا کی وادی میں واقع ہے ( پاکستان جیسے خالص ٹوکا اوزار پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں نہیں ملے ہیں ) ۔ یہ سب بڑے بڑے اور کھردرے اوزار ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ انسان پتھروں سے اوزار بنانے کا آغاز کر رہا تھا تو زیادہ باریک بینی اور نفاست کا اہل نہ ہو سکتا تھا ۔

اس زمانے میں یورپ میں چھلکے اور مغز دونوں کی صنعتیں نظر آتی ہیں اور دونوں کی ساخت میں واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔ مغز صنعت کو ماہرین آثار نے قدیم ترین باشعور آدمی ( ہوموسیپئن )سے وابستہ کیا ہے۔ گویا پتھروں سے اول اول چھلکا اوزار بنے۔ پھر اگلے مرحلے میں مغز اوزار بنے۔ چھلکا اوزار سادہ اور آسان ہیں۔ لاکھوں سال انسان صرف اتنی کار کردگی کے قابل رہا۔ اس کے بعد کہیں جاکر پیچیدہ اور بہتر عمل کے اس قابل ہوا اور مغز اوزار بناسکا ۔

پاکستان میں سب سے پہلے ٹوکا اوزار بنے جو قبل از سون صنعت تھی۔ اس نے آگے چل کر چھلکا صعنت کو جنم دیا۔ جو ٹوکا اوزار بنانے والی نسلوں نے بھی تخلیق کی ہوگی اور اس کے بہت بعد کہیں مغز اوزاروں کا زمانہ آیا ہوگا۔ یوں بھی یہ زمانہ انسان کے ہاتھ کی مظبوط گرفت کی ترقی کا ہے۔ انگلیوں میں چٹکی کی گرفت کے ارتقائ کا زمانہ بعد کا ہے ۔

اس انسان کی زندگی کا دارو مدار جانوروں کے شکار، نباتات میں سے خوراک کی تلاش اور دریاؤں کے پانی پر تھی ۔

پاکستان کے انسان نے آگ کا استعمال کب شروع کیا۔ اس بارے میں حتمی شواہد تو نہیں ملے۔ لیکن دنیا کے دوسرے علاقوں میں آگ کی دریافت، پتھروں کے اوزاروں سے ان کے تعلق اور عمومی انسانی زندگی کی ترقی کے مرحلے سے آگ کے رشتے کا تعین کیا جا سکتا ہے، اس اعتبار سے پاکستان میں قبل از سون صعنت کا دور آگ کے استعمال سے یکسر خالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فرانس میں آگ کے ساڑھے سات لاکھ قبل استعمال ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ چین میں پانچ لاکھ سال قبل پیکنگ انسان نے آگ کو تسخیر کر لیا تھا تو اس کے ہم عصر پوٹھوہار انسان کے لیے یہ کام زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے یہ یقین کرنا چاہیے کہ پاکستان کے باشعور آدمی سے پہلے یعنی کھڑے آدمی نے آگ پر قابو پالیا تھا۔ یہ کھڑا آدمی ۔۔۔۔۔ پوٹھوہار انسان۔۔۔۔۔ ٹوکا صنعت کا خالق تھا۔ ٹوکا جو گوشت کاٹنے کے کام آتا تھا۔ یہ چھ لاکھ سال قبل کا زمانہ ہے۔ یہ دوسری برف بندی کا زمانہ تھا ۔

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور