قدرتی آفت کسی بھی قدرتی خطرے جیسے سیلاب، ٹورنیڈو، سمندری طوفان، آتش فشاں، زلزلے یا تودے وغیرہ سے منسلک اثرات کا نام ہے جو ماحول پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ قدرتی وسائل، مالی اور جانی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والا نقصان کی شدت اس ماحول سے منسلک آبادی کا آفت کے برپا ہونے یا اس سے نبرد آزما ہونے کی خاصیت پر منحصر ہوتا ہے۔[1] قدرتی آفت بارے یہ نظریہ دراصل اس بنیاد پر قائم کیا گیا ہے کہ کسی بھی آفت کا اس خطے میں زندہ اشیاء کی موجودگی اور آفت کے برپا ہونے کے نتیجہ میں منسلک بے بسی کے ساتھ کس درجہ کا تعلق ہو سکتا ہے۔[2]

تکنیکی لحاظ سے قدرتی آفت کی تعریف دراصل آبادیوں کی موجودگی اور ان کو متوقع آفات سے خطرات کے دائرہ میں ہی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر غیر آباد خطے میں انتہائی شدید ترین زلزلہ بھی تکنیکی لحاظ سے قدرتی آفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ اسی تکنیکی تعریف کی بنا پر لفظ “قدرتی“ محققین کے مابین اختلاف کی وجہ ہے، کیونکہ کسی بھی تکنیکی آفت کا صرف انسان سے متعلق ہونا ہی کسی طور بھی قدرتی آفت نہیں کہلایا جانا چاہیے۔[3]

قدیم زمانے میں قدرتی آفت کے شماریات پیش کرنا بہت مشکل کام رہا ہے۔[4] تاہم جب یونانی علوم اور خاص طور پر اسلامی علوم جس میں عربی اعداد سرفہرست ہے نے تحقیق کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تو پھر قدرتی آفت سے متعلق شماریات پیش کرنا آسان ہو گیا۔[5][6]

تصاویر

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. جی۔ بینک آف، ڈی۔ ہل ہارسٹ، جی۔ فرینکس (2003ء)۔ "خطرات کا تعین"۔ آفات، ترقی اور انسان 
  2. بی۔ وزنر ،ٹی۔ کینن اور آئی۔ ڈیوس (2004ء)۔ خطرات- قدرتی آفات، انسانی بے بسی اور آفات کا تعین 
  3. ڈی۔ ایلیگذینڈر (2002ء)۔ ہنگامی حالات کے اصول اور بچاؤ۔ ہارپینڈ، ٹیرہ پبلشنگ 
  4. Benjamin Reilly (2022-05-13)۔ Disaster and Human History: Case Studies in Nature, Society and Catastrophe, 2d ed. (بزبان انگریزی)۔ McFarland۔ صفحہ: 34–34۔ ISBN 978-1-4766-8809-1 
  5. Sandhya Patel، Sophie Chiari (2022-12-12)۔ The Writing of Natural Disaster in Europe, 1500–1826: Events in Excess (بزبان انگریزی)۔ Springer Nature۔ صفحہ: 16۔ ISBN 978-3-031-12120-3 
  6. Kozák, Jan; Čermák, Vladimír (2010). The Illustrated History of Natural Disasters. Dordrecht: Springer Netherlands. p.1. doi:10.1007/978-90-481-3325-3.. ISBN 978-90-481-3324-6.