قدیم چینی مذہبی نظریات

چینیوں نے زمانہ قدیم ہی سے مخصوص مذہبی نظریات اور رواجوں کو اپنا رکھا تھا جنھوں نے بعد میں تاؤمت اور کنفیوشس مت کے فلسفے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں قدیم چین کے متعدد مذہبی نظریات ملتے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔

کثیر خداؤں اور ارواح کی معرفت ترمیم

چینی لوگوں کا ابتدائی ترین مذہب کثیر خداؤں اور ارواح کی معرفت پر مبنی تھا۔ جو ان کے مطابق کائنات پر قادر ہیں۔ بیشتر دیگر مذہبی فرقوں کی طرح قدیم چینی بھی کائنات کی آگہی میں کثرت پرست اور ارواح پرست تھے۔ انھوں نے آسمان اور زمین کے دیوتا بنا رکھے تھے جو ان کی خصوصی توجہ اور قربانی حاصل کرتے تھے۔ بہار اور خزاں میں قدیم چینی بادشاه آسمان اور زمین کے دیوتاؤں کے لیے وافر اور قیمتی قربانیاں نذر کرتے تھے۔ ان رسومات میں سے بیشتر زمین کی زرخیزی اور فصلوں کی کثرت کے لیے ہوتی تھیں۔ کم درجہ کے اہلکار اور عام لوگ بھی ان ارواح کو قربانیاں پیش کیا کرتے تھے۔ چینیوں نے آسمانی اور زمینی دیوتاؤں کے علاوہ بہت سے مقامی دیوتا بھی بنا رکھے تھے۔ عام طور پر چینی مہربان ارواح کو شین کہا کرتے جو زمین کی روشن اور چمکدار جگہوں پر پائی جاتیں اور انھیں سورج اور بہار سے متعلق سمجھا جاتا۔ بری اور ضرر رساں ارواح کو کویی کہا جاتا جو تاریک مقامات پر پائی جاتیں۔ عموماً لوگ شین سے اچھے تعلقات قائم رکھنے اور کویی سے محفوظ رہنے کی غرض سے قربانیاں اور رسوم ادا کرتے۔ عام طور پر چینی جانوروں اور اناج کی قربانی دیتے تھے لیکن بعض اوقات دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے انسانی قربانی دی جاتی۔

ین اور یانگ ترمیم

کائنات کی حقیقی فطرت کو واضح کرنے والے اصول کی تلاش میں قدیم چینی فلسفیوں نے ین اور یانگ کے تصورات کو ترقی دی۔ قدیم چینیوں کے مطابق کائنات کو اس کے موجودہ انداز میں چلانے والی دو قوتیں ہیں۔ جن میں ین فطرت میں ایک منفی قوت ہے۔ جو تاریکی ٹھنڈک، نسوانیت، نمی، زمین، چاند اور سایوں میں پائی جاتی ہے جبکہ یانگ فطرت میں پائی جانے والی ثبت قوت ہے جو روشنی‘ نور، گرمائش، مردانگی، خشکی اور سورج میں پائی جاتی ہے۔ چینیوں کے نزدیک این او ر یانگ کی قدر کے بارے میں کوئی واضع رائے نہ تھی۔ ان کے مطابق نہ ین یانگ سے بہتر ہے نہ یانگ ین سے اور نہ یانگ نیکی اور ین شر ہے یا ین نیکی اور یانگ شر۔ ان کے نزدیک ین اور یانگ کے درمیان باہمی ربط کائنات کا انداز عمل تھا- جب یہ دونوں قوتیں ہم آہنگی کے ساتھ کار فرما ہوں تو زندگی ویسی ہی ہوتی ہے جیسی اسے ہونا چاہیے۔

اجداد پرستی ترمیم

پوری تاریخ میں چینی لوگوں کی ایک خصومیت خاندان کے معمر افراد کی تعلیم و تکریم رہی ہے۔ تاؤمت کے بانی کا نام لی پوہ یانگ تھا مگر اس کے شاگرد اسے لاؤ تزو کہتے تھے جس کا مطلب بوڑھا استاد یا بوڑھا لڑکا ہے۔ چینیوں میں بوڑھے یا معمر کی اصطلاح بے عزتی کی علامت نہیں بلکہ یہ احترام کی قطعی اصطلاح ہے۔ چینی صحیح معنوں میں ساٹھ برس کی عمر کو زندگی کا آغاز کہتے ہیں جب انسان تعظیم کی عمر کو پہنچ جاتا ہے۔ تاریخی طور پر بوڑھا باپ، ماں، دادا یا دادی ہی چینی خاندان میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ بچوں کا فرض ہے کہ بڑوں کو سہارا دیں، ان کی اطاعت کریں اور ان کی وفات کے بعد مناسب تدفین کا بندوبست کریں۔ والدین کی وفات کے بعد بھی بچے پر فرض ہے کہ ان کی قبر کی حفاظت کریں انھیں اور ان کے اعمال کو یاد رکھیں اور ان کے لیے قربانیاں کریں- چینی طرز زندگی کے اس عمل کو مغربی طلبہ اجداد پرستی کا نام دیتے ہیں- درحقیقت ان رسومات میں ایک مذہبی پہلو ہے۔ افراد اپنے والدین کی زندگی میں اور ان کی موت کے بعد بھی ان کی عزت کرتے ہیں۔ بوڑھے لوگ زندگی کے دوران خاندان کی دانشمندی کی نمائندگی کرتے ہیں اور اپنی وفات کے بعد وہ عالم ارواح کے ساتھ اپنے تعلق کی وجہ سے اپنے خاندان کی مزید مدد کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لہذا یاد گیری اور قربانیوں کے ساتھ فوت شده اجداد کی مدد ضروری ہے۔ اپنے اجداد کو بھلا دینے والے چینیوں کی بے عزتی ہوتی ہے اور ایک دن وہ بھی بھٹکی ہوئی روحیں بن جائیں گے۔ تاریخی طور پر چینی گھروں میں مقبره یا قربان گاہ ہوتی ہے جس میں خاندان کی پچھلی نسل کے نام اور بیشتر کارناموں کا ذکر ہو تا ہے اور جہاں چاول اور شراب کی چھوٹی بھینٹیں مانی جاتی ہیں۔

غیب دانی ترمیم

چینی یقین رکھتے تھے کہ کائنات کی اکائی بعض ذرائع سے آئندہ ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کرتی ہے۔ بعض قدیم مذاہب پرندوں کی پرواز کے انداز یا قربان کیے گئے جانور کی انتڑیوں یا استخارے کی مدد سے مستقبل کا اندازہ لگاتے جبکہ قدیم چینی لوگ کچھوے کے خول کے نمونے یا غلے کے ڈنٹھل میں مستقبل تلاش کرتے۔ کچھوے کے خول کو اس کی لمبی عمر کی وجہ سے کائنات کے ُسروں کے ساتھ خصوصی طور پر ہم آہنگ سمجھا جاتا۔ خول کو وقفے وقفے سے گرم کیا جاتا اور اس پر ظاہر ہونے والی دراڑوں سے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کی جاتی۔ قدیم چینیوں میں غیب دانی غالباً آئی چنگ (تبدیلیوں کی کتاب) کے ارتقا سے عروج کو پہنچی جسے کنفیوشس نے تالیف کیا اور جو اب تک استعمال ہوتی ہے۔ سکوں کے پھیکنے یا کسی پودے کے ڈنٹھلوں سے مخصوص نمونے اُبھر آتے۔ آئی چنگ میں پیش کرده چونسٹھ نمونوں کو سمجھ لینے سے کہانت با پیش گوئی کی جاتی۔ [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. مذاہب عالم کا انسائیکلو پیڈیا مصنف لیوس مور اردو مترجم سعدیہ جواد اور یاسر جواد صفحہ 265 تا 268