قصواء نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی کا نام تھا۔

غار ثور میں قیام کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے رسول اللہؐ کی خدمت میں قصویٰ تحفے کے طور پر پیش کی لیکن انھوں نے انکار کر دیا کہ نہیں آپ اس کی قیمت طے کریں میں اس کی ادائیگی کروں گا تب اس پر سوار ہوں گا۔۔۔ حضرت ابوبکرؓ اصرار کرتے ہیں لیکن رسول اللہؐ اونٹنی تحفے کے طور پر قبول کرنے پر مائل نہیں ہوتے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ تامل کرتے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ رسول اللہؐ راضی نہیں ہوں گے چنانچہ مجبوراً قصویٰ کی قیمت بتاتے ہیں اور پھر رسول اللہؐ اُس اونٹنی کے لیے ادائیگی کر کے اس کے مالک بن جاتے ہیں،

یہ وہی اونٹنی تھی جس پر سوار ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی تھی۔ یہی وہ اونٹی بھی ہے جس کے اوپر میدان عرفات میں واقع ایک پہاڑ جبل رحمت جسے جبل عرفہ بھی کہتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر خطاب کیا تھا۔میدان عرفات میں جس جگہ یہ اونٹی کھڑی ہوئی تھی وہاں ایک سفید لوح نصب ہے۔

  • نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس قصواء کے علاوہ اونٹوں میں دو نام اور بھی سامنے آتے ہیں۔ جن کے بارے میں تھوڑا اختلاف ہے کہ یہ ایک ہی اونٹ کے دو نام ہیں یا الگ الگ۔ عضباء اورجدعاء۔ عضباء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ اونٹنی تھی جس سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا تھا پھر ایک اعرابی نوجوان اونٹ پرآیا تووہ اس عضباء سے سبقت لے گیاجومسلمانوں کو بہت ناگوارگزرا تونبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمانے لگے۔ اللہ تعالی کا حق ہے کہ دنیا میں جس کسی چيزکوبھی بلندی دیتا ہے توپھر اسے پستی اورزوال پزیر بھی کرتا ہے۔ اس بات کا ذکر اس حدیث میں بھی ہے۔
  • عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ کَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةٌ تُسَمَّی الْعَضْبَاءَ لَا تُسْبَقُ قَالَ حُمَيْدٌ أَوْ لَا تَکَادُ تُسْبَقُ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَی قَعُودٍ فَسَبَقَهَا فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ حَتَّی عَرَفَهُ فَقَالَ حَقٌّ عَلَی اللہِ أَنْ لَا يَرْتَفِعَ شَيْئٌ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا وَضَعَهُ،[1]
  • حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک اونٹنی تھی، جس کا نام عضباء تھا، کوئی اونٹنی اس سے آگے نہ بڑھتی تھی، حمید راوی نے یا یہ کہا کہ کوئی اس سے آگے نہ جا سکتی تھی، پس ایک اعرابی ایک نوجوان اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور وہ اس سے آگے نکل گیا، مسلمانوں کو یہ بات بہت شاق گذری، یہاں تک کہ آپ کو معلوم ہوا، آپ نے فرمایا اللہ پر یہ حق ہے کہ دنیا کی جو چیز بلند ہو، اس کو پست کر دے۔
  • اس کے علاوہ کہا جاتاہے کہ بدروالے دن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابوجہل کا مھری اونٹ مال غنیمت میں حاصل کیا جس کے نتھنوں میں چاندی تھی توحدیبیہ والے دن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشرکوں کوغضب دلانے کے لیے اسے ہدیہ کر دیا۔[2]

،10ھ حج الوداع کے موقع پر رسول اللہ ص کا مقدس قافلہ مدینہ منور سے 6 میل دور ذی الحلیفہ میں پہنچ کر ٹھہرا اور ذی الحلیفہ میں رات گزار کر دوسرے روز روانہ ہوا، روانہ ہونے سے پہلے آپ ﷺ پھر حمدوثنا میں مشغول ہو گئے اور بڑے سوز وگداز سے دو رکعتیں ادا کیں، پھر قصویٰ (آپ ﷺ کی اونٹنی کا نام ہے) پر سوار ہوکر احرام باندھا اور ترانہٴ لبیک بلند کر دیا

حوالہ جات

ترمیم
  1. صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر
  2. زاد المعاد لابن قیم رحمہ اللہ تعالی ( 134 )