قصیدہ نور مولانا امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کا مشہور قصیدہ ہے، جو ان کے نعتیہ دیوان حدائق بخشش میں شامل ہے۔

قصیدے کا متن[1]

ترمیم
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
باغ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مست بوہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
بارھویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستارا نور کا
ان کے قصر قدر سے خلد ایک کمرہ نور کا
سدرہ پائیں باغ میں ننھا سا پودا نور کا
عرش بھی فردوس بھی اس شاہ والا نور کا
یہ مثمن برج وہ مشکوئے اعلیٰ نور کا
آئی بدعت چھائی ظلمت رنگ بدلا نور کا
ماہ سنت مہر طلعت لے لے بدلا نور کا
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا
میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا
نور دن دونا تیرا دے ڈال صدقہ نور کا
تیرے ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا
رخ ہے قبلہ نور کا ابرو ہے کعبہ نور کا
پشت پر ڈھلکا سر انور سے شملہ نور کا
دیکھیں موسیٰ طور سے اترا صحیفہ نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا
بینئ پر نور رخشاں ہے بکہ نور کا
ہے لواء الحمد پراڑتا پھریرا نور کا
مصحف عارض یہ ہے خط شفیعہ نور کا
لوسیہ کا رو مبارک ہو قبالہ نور کا
آب زر بنتا ہے عارض پر پسینہ نور کا
مصحف اعجاز پر چڑھتا ہے سونا نور کا
پیچ کرتا ہے فدا ہونے کو لمعہ نور کا
گرد سر پھرنے کو بنتا ہے عمامہ نور کا
ہیبت عارض سے تھر آتا ہے شعلہ نور کا
کفش پاپر گر کے بن جاتا ہے گپھا نور کا
شمع دل مشکوٰۃ تن سینہ زجاجہ نور کا
تیری صورت کے لیے آیا ہے سورہ نور کا
میل سے کس درجہ ستھرا ہے وہ پتلا نور کا
ہے گلے میں آج تک کورا ہی کرتا نور کا
تیرے آگے خاک پر جھکتا ہے ماتھا نور کا
نور نے پایا ترے سجدے سے سیما نور کا
تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
کیا بنا نام خدا اسریٰ کا دولہا نور کا
سر پہ سہرا نور کا بر میں شہانہ نور کا
بزم وحدت میں مزا ہوگا دو بالا نور کا
ملنے شمع طور سے جاتا ہے اکہ نور کا
وصف رخ میں گاتی ہیں حوریں ترانہ نور کا
قدرتی بینوں میں کیا بجتا ہے لہرا نور کا
یہ کتاب کن میں آیا طرفہ آیہ نور کا
غیر قائل کچھ نہ سمجھا کوئی معنی نور کا
دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا نہ بھالا نور کا
من رای کیسا؟ یہ آئینہ دکھایا نور کا
صبح کردی کفر کی سچا تھا مژدہ نور کا
شام ہی سے تھا شب تیرہ کو دھڑکا نور کا
پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا
سر جھکا اے کشت نظر آتا ہے اہلا نور کا
ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہو گیا ٹھنڈا کلیجا نور کا
نسخ ادیاں کرکے خود قبضہ بٹھایا نور کا
تاجور نے کر لیا کچا علاقہ نور کا
جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار سے کیا اس میں توڑا نور کا
بھیک لے سرکار سے لاجلد کا سہ نور کا
ماہ نوطیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا
دیکھ ان کے ہوتے نازیبا ہے دعویٰ نور کا
مہر لکھ دے یاں کے ذروں کو مچلکا نور کا
یاں بھی داغ سجدہ طیبہ ہے تمغا نور کا
اے قمر کیا تیرے ہی ماتھے ہے ٹپکا نور کا
شمع ساں ایک ایک پروانہ ہے اس بانور کا
نور حق سے لو لگائے دل میں رشتہ نورکا

حوالہ جات

ترمیم
  1. "صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا"۔ islamkidunya [مردہ ربط]