قلعہ ثمرقندتیرہویں صدی عیسوی سے تعلق رکھنے والا ایک قلعہ ہے
کلر کہار کے قریب چنجی سے 18 کلومیٹر دور آئمہ میرا کا چھوٹا سا گاؤں ہے جو 1850ء میں ایک انگریز کو گاؤں میں ایک کنوئیں کے قریب چونا مٹی سے بنے تین چوکور ٹکڑے ملے جن پر قدیم سنسکرت زبان میں کچھ لکھا تھا اس کنوئیں اور گاؤں کے کھیتوں سے آگے سرخی مائل مٹی کے تہ در تہ ٹیلے ہیں جو ایک پہاڑی تک جاتے ہیں جس کے آس پاس کی وادی آج کل ’’ثمرقند‘‘ کہلاتی ہے یہ پہاڑی گاؤں سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر ہے۔ گھاس پھوس اور جھاڑیوں کو عبور کرتے ہوئے پہاڑی کے اوپر چڑھیں تو جلد ہی قدیم تعمیر کے نشان نظر آتے ہیں یعنی فصیل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جو ساٹھ سینٹی میٹر بلند اور تیس سینٹی میٹر چوڑا ہے اور چونے کے پتھروں سے بنا ہے۔ ڈھلوان پر چڑھتے ہوئے فصیل جیسے بیسیوں ٹکڑے ملتے ہیں جو فرسودگی کا شکار ہیں۔ فصیل کے چار بیضوی برج ٹوٹی پھوٹی حالت میں باقی ہیں یہ فصیل ایک قدیم قلعے کی ہے جس کا خاکہ پہاڑی کی چوٹی سے بخوبی نظر آتا ہے قلعہ بے ترتیب انداز میں لمبوترا بنایا گیا اور مشرق سے مغرب کی طرف 600میٹر لمبا اور 300 میٹر چوڑا ہے۔ پہاڑی کی ٹوٹی پھوٹی زمین قلعے کو مزید فطری دفاع فراہم کرتی ہے جنوب کی طرف فصیل کی دیوار نہیں کیونکہ وہاں پہاڑی کے کنارے دیوار جیسی شکل میں وادی ثمرقند کی کٹی پھٹی زمین سے ملتے ہیں۔ شمال کی طرف بنائی گئی دیوار کے آثار ہیں جس میں وقفے وقفے سے برج بنے ہیں صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس قلعے پر زبردست حملہ نہیں ہوتا ہوگا کیونکہ قلعہ ثمرقند چند دن کے محاصرے کے بعد مفتوح ہو سکتا تھا۔ حقیقت میں یہ قلعہ رہائشی نہیں بلکہ پسپائی کے وقت جائے پناہ کے طور پر بنایا گیا تھا اس لیے قلعہ ایسی جگہ قائم ہے جو خود فطری گوشہ تنہائی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ قلعہ تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا۔ قلعے کے نیچے ایسے آثار ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں ابتدائی اسلامی دور کی آبادی موجود تھی مثلاً وہاں سے برتن اور تسبیحیں ملیں قلعہ کوہستان نمک کے مرکزی علاقے سے جنوب کی طرف خاصی دور ہے اس لیے مغل بادشاہ بابر یہاں نہیں آیا اور لگتا یہی ہے کہ اس سے پہلے اور بعد کے فاتحین بھی یہاں سے نہیں گذرے۔ ثمرقند بھرپور طریقے سے تاریخ میں اس لیے جگہ نہیں پا سکا کہ یہ کوہستان نمک کی ایک خشک اور کم اہم راہ پر واقع ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ گذشتہ صدیوں میں اس غیر معروف قلعے پر قبضے کے لیے چھوٹے موٹے سرداروں کے مابین جنگیں ہوئی ہوں گی جو پہاڑی قبائل کے سربراہان تھے۔ لیکن اس علاقے کا نام ثمرقند عجیب اور مخمصے میں ڈالنے والا ہے اس کے علاوہ وسطی ایشیا کا کم از کم ایک مشہور بادشاہ یہاں ضرور آیا ہے۔ [1] [2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. پاکستان کے آثارِ قدیمہ محمد نوید اسلم
  2. سیالکوٹ سے خیبر تک: ایم زمان کھوکھر ایڈو کیٹ : صفحہ 506،یاسر اکیڈمی کچہری روڈگجرات