قوم تبع کا کا تعلق یمن سے تھا قوم تبع سے مراد قوم سبا ہی ہے تبع دراصل قوم تبع کے جد امجد کا نام تھا

قرآن میں ذکر

ترمیم

قرآن میں دو مرتبہ اس قوم کا ذکرآیااللہ تعالیٰ نے ہلاک ہونے والی قوموں کے ساتھ ذکر کیا جیسے قوم عادقوم ثمودقوم فرعون اور قوم تبع
  أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ أَهْلَكْنَاهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ    
اس آیت میں قوم تبع اور ان سے پہلے مجرموں کو اللہ نے ہلاک کرنے کا ذکر کیا۔ اگر تم سچے ہو تو اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو ”۔ تا کہ قوم تبع کا انجام انھیں بتایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ تم ان سے کچھ اچھے لوگ نہیں ہو کہ اس برے انجام سے بچ کر نکل جاؤقوم تبع سے مراد تبابعہ یمن ہیں جن کی مادی شوکت و عظمت اور ذہنی صلاحیتوں کی عرب میں بڑی شہرت رہی ہے۔ عرب شعرا ان کی عظمت کا چرچا بہت کرتے ہیں
  وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ    
دونوں جگہ صرف نام ہی مذکور ہے، واقعہ یہ ہے کہ تبع کسی فرد معین کا نام نہیں بلکہ یہ یمن کے ان حمیری بادشاہوں کا لقب رہا ہے جنھوں نے ایک عرصہ دراز تک یمن کے مغربی حصہ کو دار السلطنت قرار دیکر عرب، شام، عراق اور افریقہ کے بعض حصوں پر حکومت کی، قوم تبع یمن میں رہتی تھی۔ یہ لوگ نہایت طاقتور اور ہر طرح کے مادی ساز و سامان سے آراستہ تھے
تبع یمن کے بادشاہوں کا لقب ہے جس طرح ملوک فارس کا کسری اور چونکہ اہل دنیا ان کا اتباع کرتے ہیں اس لیے ان کا لقب تبع ہوا وہب بن منبہ نے کہا : تبع خود مسلمان تھا اور اس کی قوم کافر تھی، اس لیے اس آیت میں اس کی قوم کا ذکر ہے۔
قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس کا نام تبع اس وجہ سے رکھا گیا کہ اس کے متبعین بہت زیادہ تھے اور ان میں سے ہر بادشاہ کا نام تبع رکھا جاتا تھا۔ اس لیے کہ وہ پہلے کاتابع ہوتا تھا۔ یہ بادشاہ آگ کی پوجا کرتا تھا، اسلام لے آیا اور اپنی قوم حمیر کو اسلام کی طرف بلایا۔ انھوں نے اس کو جھٹلایا[1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر بغوی۔ ابو محمد حسین بن مسعود الفراء بغوی