قوم سباسبا یمن کا ایک علاقہ ہے، جو صنعاء اور حضرموت کے درمیان ہے، اس کا مرکزی شہر مآرب تھا، اس علاقے کو سبا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقہ میں سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کی ایک شاخ آباد تھی۔
قوم سبایمن میں رہتی تھی، قوم تبع بھی ان ہی میں سے تھی، بلقیس بھی یہیں کے رہنے والی تھیں، یہاں کے لوگ بہت نعمتوں اور راحتوں میں تھے، اللہ کے رسول ان کے پاس آئے اور ان کو شکر کرنے کی تلقین کی اور ان کو یہ دعوت دی کہ یہ اللہ تعالیٰ کو واحد لاشریک مانیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے طریقے بتائے، جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا یہ اسی طرح رہتے رہے، پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کی تو ان پر بہت تندوتیز سیلاب آیا جس سے تمام باغات، کھیت اور ملک برباد ہو گیا۔
ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ سبا کوئی مرد ہے یا کوئی عورت ہے یا کسی ملک کا نام ہے؟ آپ نے فرمایا سبا ایک مردتھا جس کے دس بیٹے تھے، ان میں سے چھ یمن میں چلے گئے تھے اور چار شام میں۔[1] ان کے دونوں جانب پہاڑ تھے جہاں سے نہریں اور چشمے بہہ بہہ کر ان کے شہروں میں آتے تھے، اسی طرح نالے اور دریا بھی ادھر ادھر سے آتے تھے، قدیم بادشاہوں میں سے کسی نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط پشتہ بنوادیا تھا، دریا کی دونوں جانب باغ اور کھیت اگا دیے گئے تھے، پانی کی کثرت اور زرخیز میں ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ بہت سرسبز رہا کرتا تھا، قتادہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی عورت اپنے سر پر ٹوکرارکھ کر نکلتی تو کچھ دور جانے کے بعد وہ ٹوکراپھلوں سے بھر جاتا تھا، درختوں سے اتنا زیادہ پھل گرتے تھے کہ ہاتھ سے توڑنے کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی، مآرب میں ایک دیوار تھی جو صنعاء سے تین منزل پر تھی اور سدمآرب کے نام سے مشہورتھی، وہاں زہریلے جانور اور مکھی اور مچھر بھی نہیں ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ کی یہ تمام نعمتیں اس لیے تھیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے پر برقرار رہیں اور اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کریں[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. مسند احمد ج 1 ص 613 طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : 92، مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ، 1431 ھ
  2. تفسیر تبیان القرآن،غلام رسول سعیدی،سورہ السبا، آیت15 فرید بکسٹال لاہور