بلوچ روایت کے مطابق میر جلال خان کے دوسرے بیٹے کا نام لاشار تھا اور رند کی طرح یہ سپہ سالار تھا ۔ میر جلال خان کے مرنے کے بعد جب رند اور لاشار باپ کی تدفین میں مصرف تھے ہوت کی ماں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور قلعے کے دروازے بند کر دیے اور ہوت کی باصبطہ بادشاہی کا اعلان کر دیا ۔ جس پر رند اور لاشار نے لڑنا مناسب نہیں سمجھا کہ سوتیلی ماں اور بھائی سے جنگ کی جائے ۔ اس کے بعد لاشار نے ایرانی بلوچستان اور قندھار کا رخ کیا ۔ ان کی اولاد پھلی پھولی ۔ جب ان علاقوں میں خشک سالی پھیلی تو انھوں نے قلات کا رخ کیا اور میر شہک کی سربراہی میں قلات کو فتح کیا اور سبی آئے ۔ یہاں انھوں نے جام نندا کی شکت دے کر اپنی حکومت قائم کی ۔ کہا جاتا ہے میر شہک کے ساتھ چوراسی ہزار کا لشکر تھا ۔ میر شہک کی حکومت سبی میں تقریباً تیس سال رہی اور میر شہک کے لڑکے میر چاکر کے دور میں رندوں اور لاشاریوں کے درمیان جنگ جھڑ گئی ۔ جس کے بعد رند اور لاشار سبی کی طرف نقل مکانی کرگئے ۔ یہ بلوچ روایات ہے مگر تاریخ کچھ اور بتاتی ہے ۔

تاریخ معصومی ہے کہ سبی کے قلعہ میں پیر ولی برلاس کی اولاد حکمران تھی ۔ شاہ بیگ نے سبی کے قلعہ کو فتح کر لیا تو جو لوگ قلعہ میں تھے حاضر ہو گئے ۔ باقی لوگ وہاں سے پچاس کوس فتح پور چلے گئے ۔ سلطان پیر ولی کی اولاد ، برغدائی ، کوریائی اور بلوچ قبائل میں ایک ہزار اور دوسرے قبائل میں دو ہزار سوار لڑائی کے لیے نکلے ۔ لیکن فتح شاہ بیگ کو ہوئی ۔ ان میں سے کچھ قتل کر دیے گئے اور کچھ سندھ فرار ہو گئے ۔

اسی سال 923 ہجری (1517;46;18) میں جام نندہ کے منہ بولے بیٹے دریا خان نے ایک زبر دست لشکر کے ساتھ سیوی حملہ کیا ۔ شاہ بیگ مقابلہ کرنے نکا اور شاہ بیگ کے کچھ سپاہیوں اور سندھیوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔ اس میں ابو محمد جو شاہ بیگ کا بھائی تھا مارا گیا ۔

قابل ذکر بات یہ ہے لاشاری مغربی بلوچستان میں بالکل نہیں پائے جاتے ہیں ۔ مشرقی بلوچستان میں گندھاوا کے مقام پر مگسی قبیلہ میں ایک طاءفہ کی صورت میں ملتے ہیں ۔ کچھ تعداد ان کی سندھ ملتی ہے اور پنجاب میں ان کی کافی تعداد سرائیکی علاقہ میں آباد ہے ۔ ان کا پہلے پیشہ بشتر بانی تھا اور یہ سامان کی اونٹوں کے ذریعہ نقل و حرکت کرتے تھے ۔ اب زراعت اور دوسرے پیشوں میں بھی آگئے ہیں ۔

روایت کے مطابق لاشاری مکران سے قندھار جابسے اور وہاں سے سبی آئے ۔ ان کا کہنا ہے ایرانی بلوچستان کے علاقہ لاشار کی وجہ سے ان کا نام لاشاری پڑا ۔ اگر اسے مان لیا جائے تو میر جلال کے لڑکے کی نفی ہوتی ہے ۔ میر شہک اور میر چاکر کی کہانی میں کوئی حقیقت نہیں ہے تاریخی طور پر سبی پر جام نندا کی حکومت تھی اور اسے شکت دے کر ارغون فرمان روا شاہ بیگ نے قبضہ کر لیا تھا ۔ ان کا قبضہ مرزا غازی بیگ تک دور تک رہا ۔ یہاں تک کہ مرزا غازی بیگ نے اکبر کی فرمانروئی قبول کرلی ۔ اس کے بعد یہاں مغل گورنر آتے رہے ۔ اس کے بعد یہاں کلہوڑں کے قبضہ میں آیا اور ان سے سے خان قلات نے چھین لیا ۔ کہنے کا مقصد ہے یہاں میر شہک کا قبضہ اور اس کے لڑکے میر چاکر اور لاشاریوں کی جنگ ایک کہانی سے زیادہ نہیں ہے ۔ تاریخی طور پر اس کے کوئی شواہد نہیں ملتے ہیں ۔ پہلے زمانے میں بھاٹ اپنے ممدوع کو اس طرح کی داستانیں سنایا کرتے تھے ۔ اسے زمانے پھر فاتح اور رستم سے زیادہ بہادر بتایا کرتے تھے ۔

بلوچستان میں رند جو ایک قبیلے کی صورت میں متحد ہو چکے تھے ان کا مشرقی بلوچستان میں آنا پسند نہیں کیا اس کے خلاف انھوں نے مزاحمت کی اور بابر کے حملوں کے بعد یہ پنجاب و سندھ میں پھیل گئے ۔ ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں تھی اس لیے یہ منتشر ہو گئے ۔

لاشاری مشاہیر

ترمیم

ماخذ

ترمیم

بلوچستان گزیٹیر

ہتو رام ۔ بلوچستان

برگیڈیر ایم حسن عثمان ۔ بلوچستان

میر معصوم شاہ بکھری ۔ تاریخ معصومی