لطائف قدوسی
لطائف قدوسیہ شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے حالات کے سلسلے میں سب سے زیادہ معتبر اور قابلِ اعتبار کتاب ہے۔
مصنف
ترمیمشیخ رکن الدین گنگوہی کی یہ مشہور و معروف تالیف ہے، جسے انھوں نے شیخ عبد القدوس کی حیات میں ہی مکمل فرمالیا تھا ۔ اس کتاب میں شیخ رکن الدین نے اپنے ان بھائیوں کا تذکرہ بھی کیا ہے،
- (1) شیخ حمید الدین
- (2) شیخ احمد
- (3) شیخ رکن الدین
- (4) شیخ محمد علی۔
مستند کتاب
ترمیماصولی طور پر اس سلسلے میں صرف لطائف قدوسی پر ہی اعتبار کیا جانا چاہیے؛ چونکہ یہ کتاب شیخ رکن الدین نے شیح عبد القدوس گنگوہی کی حیات میں ہی ان کی اجازت سے لکھنی شروع کر دی تھی اور اس کی تکمیل ان کے انتقال کے دوماہ بعد ہو گئی تھی۔
کتاب کا مقصد
ترمیمشیخ رکن الدین لطائفِ قدوسی میں خود تحریر فرماتے ہیں:
- ”ایں فقیر بجہتِ جمعِ اوراق رخصت خواستہ و عرض کردکہ بعضے حکایات ذاتِ شریف کہ اززبانی مبارک شنیدہ ام و بعضے معائنہ و مشاہدہ کردہ ام یاد دارم میخواہم کہ درتحریر آرم، فرمانی شد علم ہمان است، بنا براں ہمت بر بستم و قلم تحریر راندم، بعضے حکایات درصدد حیات حضرت قطبی و شیخی درماہ جمادی الاولیٰ و جمادی الاخریٰ سنة اربع و اربعین و تسعمائة مرقوم گشتند وباقی دیگر بعد ازوفات با تمام پیو ستند، وچوں مضمون ایں اور اق ازلطائفِ اخبار حضرت قدوسی بود نامش لطائف قدوسی نہادم۔“[1]
- اس فقیر نے اوراق کو جمع کرنے کی اجازت چاہی اور عرض کیا کہ بعض حکایات جو آپ کی ذاتِ شریف سے متعلق ہیں اور آپ ہی کی زبانِ مبارک سے سنی ہے اور بعض چیزوں کو میں نے خود دیکھا اور ان کا مشاہدہ کیا ، وہ مجھے یاد ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ انھیں لکھ لوں، حکم ہوا علم یہی ہے؛ چنانچہ اس بنا پر میں نے ہمت کی اور تحریر کا قلم چلایا بعض حکایتیں حضرت قطبی و شیخی کی حیات کے زمانے میں 944ھ جمادی الاول اور جمادی الآخر کے مہینوں میں ضبط تحریر میں آئیں اور باقی دوسری حکایتیں آپ کی وفات کے بعد اختتام پزیر ہوئیں؛ چونکہ ان اوراق کا مضمون جناب شیخ عبد القدوس گنگوہی کے عمدہ لطائف پر مشتمل تھا؛ اس لیے میں نے اس کا نام لطائفِ قدوسی رکھا)[2]
- شیخ رکن الدین کی ایک اور تصنیف مجمع البحرین بھی حقائق ومعارف ذات و صفات کا مجموعہ ہے[3]