شیخ رکن الدین گنگوہی سلسلہ چشتیہ کے ایک بلند پایہ بزرگ اور سلسلہ چشتیہ صابریہ کے مشہور بزرگ شاہ عبد القدوس گنگوہی کے فرزند تھے۔

رکن الدین گنگوہی
معلومات شخصیت

تعلیم و سلوک

ترمیم

آپ کے والد گرامی عبدالقدوس گنگوہی ہے جو اپنے زمانے کے قطب الاقطاب تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور انہی کی زیر نگرانی سلوک کی منزلیں تہ کیں۔

علمی مقام

ترمیم

آپ بہت بلند پایا عالم تھے۔ جب عبد الاحد سرہندی اپنی تعلیم مکمل کرکے آئے تو رکن الدین گنگوہی نے ان کا امتحان لیا جس میں آپ نے حدیث، فقہ، تفسیر اور تصوف کے بارے میں بھی سوالات پوچھے جس سے آپ کی علمی قابلیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

تصنیف

ترمیم
  • آپ ایک بلند پایا ادیب بھی تھے۔ آپ نے ایک کتاب لطائف قدوسی لکھی جس میں عبد القدوس گنگوہی کے معمولات اور واقعات درج ہیں۔[1]
  • شیخ رکن الدین کی تصنیف مجمع البحرین بھی حقائق ومعارف اور ذات و صفات کا مجموعہ ہے

کرامات

ترمیم

شیخ رکن الدین کشف و کرامات کے میدان میں بڑھے ہوئے تھے تھے قطب العالم نے بارہا فرمایا کہ اگر حق تعالی نے مجھ سے قیامت کے دن دریافت فرمایا کہ دنیا سے ہماری درگاہ میں کیا لایا ہوں تو ایک ہاتھ سے شیخ جلال الدین تھانیسری دوسرے ہاتھ سے شیخ رکن الدین کو لے کر عرض کروں گا ان کو لایا ہوں مولانا چندن جو شیخ رکن الدین کے استاداور عبد القدوس گنگوہی کے مریدتھے ایک مرتبہ تالاب پر کپڑے دھونے گئے ایک حسین عورت پر دست درازی کا ارادہ کیا تو عبد القدوس گنگوہی تالاب میں کھڑے نظر آئے شرمندہ ہو کر ارادہ بدل دیا جب واپس آئے تو فرمایا گھبرانے کی بات نہیں مرشد محافظ وقت ہوتا ہے۔[2]

کیفیت وجد

ترمیم

ایک دن قطب العالم کی خانقاہ میں مجلس سماع منعقد ہوئی تو شیخ رکن الدین پر وجد طاری ہو گیا جب آپ مرتبہ شہود اور تنز یہہ پر پہنچے تو صفات کثرت سے مجرد ہوکر آپ وجد کی حالت میں لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گئے اور دیر تک لوگوں کے سامنے صرف آپ کا پیراہن رقص کرتا ہوا نظر آرہا تھا باقی کچھ نظر نہ آیا بعض کہتے ہیں کہ آپ عین رقص کی حالت میں ہوا میں پرواز کر گئے اور آسمان کی طرف اس قدر اوپر تشریف لے گئے کہ نظروں سے غائب ہو گئے

وفات

ترمیم

شیخ رکن الدین کاوصال 4 شوال [3] کو ہوا اور قصبہ گنگوہ میں اپنے والد ماجد کے آستانہ میں مدفون ہیں آپ کا سن وصال 983ھ بمطابق6 جنوری 1576ء ہے[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. حضرت مراد علی خاں رحمۃ اللہ علیہ
  2. تذکرہ اولیائے پاک و ہند، ڈاکٹر ظہور الحسن شارب ،صفحہ 226پروگریسو بکس لاہور
  3. http://noorulislambolton.com/Blog?BlogId=10369
  4. اقتباس الانوار،صفحہ 669،شیخ محمد اکرم قدوسی، ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور
  یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔