ماؤزر پستول بنیادی طور پر جرمنی میں بنا ایک نیم خود کار پستول ہے جسے Mauser C96 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس پستول کا ڈیزائن جرمنی کی اسلحہ ساز کمپنی ماؤزر نے 1896سے 1937 تک بنایا۔ 20ویں صدی میں اس کی غیر قانونی نقلیں سپین اور چین میں بھی بننے لگ گئیں۔ دیگر پستولوں کے برعکس اس میں میگزین لبلبی یعنی ٹریگر کے آگے لگتا ہے۔ اس پستول کا ایک اور ماڈل لکڑی کے کندے کے ساتھ سن 1916 میں بنایا گیا۔ اس میں بٹ کے ساتھ لکڑی کا بڑا كندا الگ سے جوڑ کر کسی رائفل یا بندوق کی طرح بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ونسٹن چرچل کو یہ پستول بہت پسند تھی۔ ہندوستانی انقلابی رام پرساد بسمل نے محض 4 ماؤزر پستولوں کے دم پر 9 اگست 1925 کو كاكوری کے پاس ٹرین روک کر سرکاری خزانہ لوٹ لیا تھا۔ سپین نے سن 1927 میں اسی کی نقل کرتے ہوئے پستول بنائے۔ ریلوے گارڈوں کی حفاظت کے لیے سن 1929 میں چین نے اس کی نقل کرکے اعشاریہ 45 کیلیبر کا ماؤزر بنایا۔

ماؤزر پستول
قسمسی-96 پریٹوٹائپ
مقام آغاز جرمنی
تاریخ صنعت
ڈیزائن15 مارچ 1895
صنعت کارماؤزر جرمنی
تیار1896
متغیراتماؤزر C-96 (ماڈل 1916)
تفصیلات
وزن1,250 گرام (44 oz)
لمبائی312  ملی میٹر (12.3 انچ)

تاریخ

ترمیم
 
ماؤزر پستول C-96 کا 1916 ماڈل (10 گولیوں اور لکڑی کے کندے کے ساتھ)
 
1916 ماڈل (لکڑی کے کندے کے اندر)

ماؤزر پستول بنیادی طور پر جرمنی میں بنائی گئی نیم خود کار پستول تھی جس کا ڈیزائن جرمنی رہائشی ولہیم ماؤزر اور پال ماؤزر نے تیار کیا تھا۔ ماؤزر کے نام سے ہی اس پستول کو جرمنی میں 15 مارچ 1895 کو پیٹنٹ کرایا گیا تھا۔ اگلے سال سن 1896 میں جرمنی کی ایک ہتھیار ساز کمپنی ماؤزر نے اس پستول کوتجارتی پیمانے پر C96 کے نام سے بنانا شروع کر دیا۔ اس کے نام میں سی کا مطلب كنسٹركشن (تعمیر) جبکہ 96 کو سال سے منسوب کیا گیا جس سال بنانا شروع کیا گیا۔ یہ ماڈل 1937 تک بنایا جاتا رہا۔ بعد میں اس پستول کو سپین اور چین میں بھی بنایا جانے لگا لیکن نام ماؤزر ہی رہا۔ اس پستول کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے بٹ کے ساتھ لکڑی کا بڑا كندا الگ سے جوڑ کر اسے ضرورت کے مطابق کسی رائفل یا بندوق کی طرح استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس سے اس کی طاقت بڑھ جاتی تھی۔ اس کندے کو حسب منشا الگ کرنے سے پستول چھوٹا ہو جاتا تھا۔ اس کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ اس کے چیمبر میں 6، 10 اور 20 گولیوں والا چھوٹا یا بڑا کوئی بھی میگزین فٹ ہو جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس پستول کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس کے پیچھے لگایا جانے والا لکڑی کا كندا ہی اس کے خول (ہولڈر) کا کام کرتا تھا۔ سن 1896 میں اس کی پیداوار شروع ہونے کے ایک سال کے اندر ہی اس پستول کو سرکاری حکام کے علاوہ عام شہریوں اور فوجی کے لیے بھی فروخت شروع ہو گئی۔ ماؤزر پستول کا سی -96 ماڈل برطانوی حکام کی پہلی پسند ہوا کرتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد برطانوی آرمی میں اس کی مقبولیت کم ہو گئی۔ فوجی ہتھیار کے علاوہ اس پستول کا استعمال نوآبادیاتی جنگوں میں بھی ہوا۔ روسی خانہ جنگی اور بالشویک انقلاب میں بھی ان پستولوں کی خوب مانگ رہی۔ ونسٹن چرچل کو یہ پستول بہت پسند تھی۔ اس پستول کی کئی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے لیے كرانتی کاریو نے ان پستولوں کی ایک کھیپ آرڈر دے کر منگوائی تھی۔

کارتوسوں کی خاصیت

ترمیم

ماؤزر پستول میں 7.63x25 ملی میٹر سائیز کے کارتوس کیے جاتے ہیں جبکہ 0.32 "بور کے رولور میں 7.65x25 ملی میٹر سائیز کے کارتوس استعمال ہوتے ہیں۔[1] 0.32 "بور رولور کے کارتوس ماؤزر کے كارتوسو کے مقابلے 0.02 ملی میٹر ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے 0.32 "بور رولور کے کارتوس بھی ماؤزر پستول میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کندے کے ساتھ طاقت

ترمیم

اس پستول کی ویسے تو مؤثر صلاحیت 150 سے 200 میٹر تک کی ہوتی تھی لیکن اگر اس کے بٹ میں كندا لگا دیا جائے تو یہ 1000 میٹر تک مؤثر طور پر مار کر سکتا تھا۔ اس کی نال سے چھوٹنے والی گولی کی رفتار 425 میٹر فی سیکنڈ یا 1394 فٹ فی سیکنڈ ہوتی تھی۔ ان خصوصیات کی وجہ سے یہ پستول اپنے زمانے کا سب سے بہترین ہتھیار ہوا کرتا تھا۔ اس کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ اس کے کندے کو پستول سے الگ بھی کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح یہ پستول اپنے آپ میں ٹو ان ون قسم کا انوکھا ہتھیار تھا۔[2]

تجارتی پیمانے پر پیداوار

ترمیم

سن 1920-1921 سے اس کی خالق کمپنی نے ماؤزر کا تکنیکی طور پر جدید ترین اور عملی ماڈل جاری کیا۔ اس کی نال کی لمبائی پہلے والے پروٹوٹائپ ماڈل کے مقابلے کچھ چھوٹی کرکے 3.9 انچ (99 ملی میٹر) کی بنا دی لیکن سٹینڈرڈ یعنی معیاری (پروٹوٹائپ) ماڈل کے کارتوس7.63x25 ملی میٹر (ماؤزر) کے سائز کے بنائے گئے۔ استعمال کے طور پر دوسرے ممالک میں فروخت کے مقصد سے کمپنی نے اس كارتوسو کے دو سائز 8.5x25.2 ملی میٹر اور 9x25 ملی میٹر (ماؤزر ایکسپورٹ) بھی بنائے۔ ان میں 8.15x25.2 ملی میٹر والے کارتوس بنائے گئے تھے۔ لیکن کسی وجہ سے ماؤزر ان كارتوسوں کو دوسرے ممالک کو برآمد نہیں کر سکی۔

فریڈرل برادرز ماڈل

ترمیم

سن 1896 میں ماؤزر کمپنی نے C-96 کا ایک اور ماڈل بھی جاری کیا۔ اس کا ڈیزائن فریڈرل بھائیوں نے تیار کیا تھا۔ اس میں بھی الگ ہونے والا كندا لگایا جا سکتا تھا۔ 1896 سے 1930 تک ماؤزر کمپنی نے ایک لاکھ سے زیادہ ایسی پستولے بیچیں

ماڈل 900

ترمیم

اس پستول کی مقبولیت سے متاثر ہوکر سپین کی ایک ہتھیار ساز کمپنی نے سن 1927میں C-96 جیسا ہی ایک اور ماڈل بنایا اور اسے نام دیا۔ اس پستول میں لگنے والا كندا الگ سے ملتا تھا۔ سپین نے یہ ماڈل 1927 سے 1941 تک بنایا۔ جاپان اور چین کی فوجوں کو فروخت کے بعد بچے اس ماڈل کی پستولوں کا استام ل ہسپانوی خانہ جنگی میں بھی ہوا۔ 1940 سے لے کر 1943 تک جرمنی کو بھی یہ ماڈل فروخت کیا گیا۔ اس ماڈل کی بھی یہ خصوصیت تھی کہ اس کے پیچھے لگایا جانے والا لکڑی کا كندا ہی اس کے خول (ہولڈر) کا کام کرتا تھا۔ اس طرح یہ پستول اور اس میں شامل کرنے والا كندا ٹو ان ون کی حیثیت رکھتے تھے۔

شیكسی ٹائپ 17 (.45 اے سی پی)

ترمیم

20 ویں صدی کے چینی تاریخ میں اس ماڈل کے پستول بنے جن کی میگزین میں اعشاریہ 45 كیلیبر کے اے سی پی کارتوس استعمال کیے جاتے تھے۔ لیکن ان کارتوسوں کو حاصل کرنے میں کافی مشکل ہوتی تھی۔ ان دنوں عام طور پر 7.63 ملی میٹر كیلیبر کے سی 96 ماڈل ماؤزر پستول کے کارتوس ہی ملا کرتے تھے۔ اس کا حل تلاش کرنے کے لیے اعشاریہ 45 اے سی پی کیلیبر کا ایک اور پستول بنایا گیا جو سی96 ماڈل کی ہی اعلی درجے کی شکل تھی۔ ٹائپ 17 کے نام سے اعشاریہ 45 كیلیبر کی اس پستول کی پیداوار سن 1929 سے چین مین شروع کی گئی۔ یہ پستول ریلوے گارڈو کو ان کی حفاظت کے لیے ریاست کی طرف سے دیا جاتا تھا تاکہ قزاقوں اور باغیوں کی لوٹ سے سرکاری پراپرٹی کو بچایا جا سکے۔ لیکن جیسے ہی چین کی خانہ جنگی ختم ہوئی اور حکومت کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ آئی، شیکسی میں بنائے گئے زیادہ تر پستولوں کو لوہا گلانے کی بھٹی میں پگھلاكر تباہ کر دیا گیا تاکہ یہ پستول عام فروخت نہ ہو سکیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. گورتے ذ، جوشم اینڈ سٹرجے س، جیپھری دی بورچارڈ اینڈ لوگر ٹومے ٹك پسٹلس، بریڈ سمپسن پبلشنگ اور جیے ل سٹرجے س، 2010 اور 2011، پرشٹھ 104 اور 138، ISBN 978-0-9727815-8-9
  2. ورلڈ گنس ماؤزر سی -96 (جرمنی)