مالائی پکوان
مالائی پکوان سے مراد جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ملک ملائشیا سے تعلق رکھنے والے پکوان ہیں۔
یہ پکوان دور حاضر میں ملائشیا کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک جیسے انڈونیشیا ، سنگاپور ، برونائی ، جنوبی تھائی لینڈ اور فلپائن (زیادہ تر جنوبی) کے ساتھ ساتھ کوکوس جزیرے ، سری لنکا میں بھی پسند کیے جاتے ہیں۔
روایتی مالائی کھانوں کی بنیادی خصوصیت مصالحوں کا فراخدلی سے استعمال ہے۔ ناریل کا دودھ مالائی پکوان کو ان کے بھرپورکریمی رنگ دیتاہیں۔ مالائی کھانا پکانے میں لیمن گراس اور گینگل کا بھر پور استعمال ہوتا ہے [1]۔
تقریباََ ہر مالائی کھانا چاول کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ،جو بہت سے دیگر ایشیائی ثقافتوں میں بھی بنیادی غذا ہے۔
اگرچہ مالائی کھانوں میں طرح طرح کے پکوان شامل ہوتے ہیں لیکن سب کو ایک ہی وقت میں پیش کیا جاتا ہے، انگریزی طرز پر ایک کے بعد ایک کھانے کا دور نہیں چلتا۔ ملائیشیا کے باشندے شاذ و نادر ہی برتن استعمال کرتے ہیں۔ [2]
مالائی کھانوں کی خصوصیات
ترمیمعین الدین نے مالائی کھانوں میں پانچ خصوصیات بتائی ہیں:
- جڑی بوٹیاں اور مصالحے سے بھرپور۔
- ناریل کا دودھ ایک اہم جز ہے۔
- عام طور پر مسالا دار؛
- گوشت عام طور پر ایک موٹی گوی کے ساتھ نکالا جاتا ہے۔
- تلی ہوئی مچھلی اور سمندری غذا عام طور پر ہلدی سفوف کے ساتھ پکائی جاتی ہے۔
مالائی مشروب
ترمیمایئر جندا پلنگ نیگری سمبلن کا روایتی مشروب۔ یہ دوپہر کے کھانے کے ساتھ اور گرم دنوں میں پینے کے لیے موزوں ہے۔[3] سینڈول ایک برفیلا میٹھا جس میں ناریل دودھ، ہرے آٹے کی جیلی کے بوندیں [4] اور کھجور شیرے کا شربت شامل ہوتا ہے۔[5]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ James Alexander (2006)۔ Malaysia Brunei & Singapore۔ New Holland Publishers۔ صفحہ: 58۔ ISBN 1-86011-309-5
- ↑ World and Its Peoples: Malaysia, Philippines, Singapore, and Brunei۔ New York: Marshall Cavendish Corporation۔ 2008۔ صفحہ: 1222
- ↑ Kurniawati Kamarudin۔ "Nikmat "Air Jando Pulang" Di Kuala Pilah"۔ Bernama (بزبان مالے)۔ Ministry of Domestic Trade, Co-operatives and Consumerism (Malaysia)۔ 27 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2017
- ↑ Jane Freiman (19 May 1986)۔ "Underground Gourmet: Sampling Indonesia"۔ New York۔ صفحہ: 119
- ↑ Naleeza Ebrahim, Yaw Yan Yee, Singapore. Not just a good food guide (Ed. rev. et augm.) 2007, p.253-4