مثنوی سحرالبیان

میر حسن دہلوی کے کی طرف سے لکھا گیا ایک مثنوی

سحر البیان اردو کی معروف مثنوی ہے جس کے شاعر میر حسن دہلوی ہیں۔ سحر البیان کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری، پلاٹ، جذبات نگاری، مکالمہ نگاری، مرقع نگاری، منظر نگاری اور سراپا نگاری کے ساتھ ساتھ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تفصیل بیان کرتی ہے۔

مثنوی سحرالبیان
مصنفمیر حسن دہلوی
اصل عنوانمثنوی سحر البیان
ملکمتحدہ ہندستان
زباناردو
صنفمثنوی
ناشرفورٹ ولیم کالج کلکتہ
تاریخ اشاعت
1803ء

اشاعت

ترمیم

اس مثنوی کو میر حسن نے 1782ء میں لکھ لیا تھا،[1] اس وقت تک برصغیر میں چھاپہ خانہ نہیں آیا تھا، مگر کتاب عام ہوئی اور عوام و خواص میں اس کی شہرت ہو گئی، پھر فورٹ ولیم کالج کلکتہ نے 1803ء میں اسے چھاپہ خانہ سے چھاپ کر شائع کیا، اس کتاب کے دیوناگری اور گجراتی رسم الخط میں بھی نسخے چھاپے گئے۔ انڈیا آفس لائبریری برطانیہ میں اردو، دیوناگری اور گجراتی میں انیسویں صدی کی بیس مختلف طباعتیں موجود ہیں۔

خوبیاں

ترمیم

اس مثنوی سے میر حسن اور ان کے دور کے مذہبی افکار و اخلاقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روایتی طرز فکر اور تصور زندگی کا جزو بن چکے تھے۔ سحر البیان اس دور کے مذہبی اعتقادات، ذہنی امور اور اخلاقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے جب اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ایک تہذیب بن رہی تھی، سحر البیان میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اسی لیے اس میں مثنوی گلزار نسیم کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں، نیز اس مثنوی کا اسلوب و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار نسیم کی صورت میں نمودار ہوا۔ پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر ایک نظر“ میں یوں لکھتے ہیں،

اگر کوئی شخص اختلاف کرنے پر آئے تو اختلاف ہر بات سے ہو سکتا ہے اس لیے اگر کہا جائے کہ میر حسن کی مثنوی سحر البیان (جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحر البیان یعنی مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدر منیر لکھا جاتا ہے) اردو زبان کی سب سے اچھی مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ رائے درست نہیں ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شاید کسی کو شدت کے ساتھ اختلاف نہ ہوگا۔ کیونکہ کہانی اور اندازِ بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جن کا مطالعہ اس کی عظمت کا پتہ دیتا ہے۔

کردار

ترمیم
  • بے نظیر - ایک شہزادہ، ملک شاہ بادشاہ کا بیٹا ہے، بہت خوبصورت، اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والا۔
  • ماہ رخ پری - ایک پری، خوبصورتی، حیاداری اور عشق پسندی کے ساتھ ساتھ رقابت اور انتقام کا شدید جذبہ۔
  • بدر منیر - قصہ کی مرکزی کردار، شاہانہ متانت، وقار، حسن و خوبی، ناز و ادا، شان و شوکت اور عیش و محبت کا پیکر۔
  • نجم النساء - سب سے زیادہ شوخ اور متحرک کردار۔

یہ مثنوی انتہائی دلچسپ ہے اسے پوری توجہ سے پڑھ کر آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں

کہانی

ترمیم

کہانی پر شروع ہی سے تنقید کی جاتی رہی ہے کہ اس میں کوئی نیا پن نہیں ہے، کہانی میں روایتی قصہ ہی پیش کیا گيا ہے:

کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں مگر اولاد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں۔ لیکن اس کی سلامتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ اسے بارہ سال کی عمر تک محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسمان تلے سونے نہ دیا جائے، کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ 12 سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہو گئی تھی (حالانکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ رات کو ضد کرکے چھت پر سو جاتا ہے۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گذر وہاں سے ہوا، اسے سوتے دیکھ کر اس پر عاشق ہو گئی اور اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو جاتا ہے۔ بڑی تلاش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغر سنی کے باعث اداس، ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی“ کے باغ میں اترتا ہے، دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں کہ اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کو وصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس کی اطلا ع ماہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے۔ بدر منیر کا عجیب حال ہے، اس کی راز دار سہیلی وزیر زادی نجم النساء بے نظیر کی تلاش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دلاتی ہے۔ دونوں کی شادی ہو جاتی ہے خود نجم النساء فیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔

مثنوی سحرالبیان میں قصہ دراصل مغلیہ دور کی عکاسی کرتا ہے ، لیکن سب سے زیادہ اہم نقطہ اس کی تہذیب و تمدن کی عکاسی ہے۔ اس میں مافو ق الفطرت عناصر (نجومی، پری اور دیو ) کی موجودگی اور تخیل کی فراوانی بسااوقات اعتراضات کا لا متناہی سلسلہ بھی شروع کر دیتی ہے اور اسی وجہ حبعض اسے دفتر بے معنی بھی کہتے ہیں مگر یہ رویہ داستان کے ادب سے ناواقفیت اور مغربی تنقیدی معیار پر پرکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ [2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. رضا علی عابدی، کتابیں اپنے آباء کی، صفحہ 285، 2012ء، سنگ میل، لاہور
  2. مثنوی سحر البیان، شعری داستانوں کا ارتقا، میر حسن دہلوی، مرتب رانا خضر سلطان