محمد البوعزیزی
محمد البو عزیزی 1984 میں تونس کے ایک عام قصبے سدی بوزید کے ایک معمولی سے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد کالج میں داخلہ لیا کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کر لیا۔ بے روزگاری کی وجہ سے عزیزی نے سدی بوزید کے بازار میں سبزی کا ٹھیلہ لگا لیا۔ ایک دن پولیس والا پہنچ گیا اور عزیزی سے ٹھیلے کا بلدیاتی پرمٹ طلب کیا۔ پرمٹ نہیں تھا۔ تو تو میں میں کے دوران پولیس والے نے عزیزی کو تھپڑ ماردیا اور ٹھیلہ سبزیوں سمیت الٹ کر ضبط کر لیا۔ عزیزی بلدیہ کے دفتر پہنچ کر اہلکاروں کے سامنے گڑگڑایا کہ اس کے گھر میں والدین سمیت آٹھ افراد ہیں۔ براہ کرم ٹھیلہ چھڑوانے میں مدد کیجئے اور پرمٹ بھی بنا دیجیئے۔ بلدیاتی اہلکاروں نے کنگلے عزیزی پر فقرے چست کرنے شروع کردیے۔ زیزی کے سامنے دو ہی راستے تھے۔ یا تو کمپیوٹر سائنس کی ڈگری ہاتھ میں لیے بے روزگاری برداشت کرتا رہتا اور کسی اوپر والے کو نہ جاننے کی سزا بھگتتا رہتا۔ یا ہزاروں مایوس نوجوانوں کی طرح کسی سمگلنگ ایجنٹ کی کشتی میں چھپ کر سمندر پار فرانس ،اٹلی یا یونان کے ساحل پر اترجاتا۔ مگر وہ تو یہیں رہنا چاہتا تھا۔ محمد ال بو عزیزی کی سمجھ میں بس ایک ہی بات آئی۔ اس نے فیس بک پر اپنی ماں کے لیے الوداعی پیغام چھوڑا اور سترہ دسمبر کو بلدیہ کے دفتر کے سامنے تیل چھڑک کر آگ لگا لی۔ مگر شعلے عزیزی کے جسم تک نہیں رکے۔ پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہر عمر اور جنس کے لاکھوں عزیزی سینوں میں دفن برسوں کی آگ اٹھائے سڑکوں پر آ گئے۔ تیونس کو اپنا سالوں پرانا اقتدار چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہونا پڑا۔ یہ آگ صرف تیونس تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ مصر، یمن، اردن، الجزائر ہر جگہ پر آمریتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ مگر خود عزیزی یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہا۔ 4 جنوری 2011 کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں انتقال ہو گیا۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ وسعت اللہ خان (23 جنوری 2011ء)۔ "جب ٹھیلا الٹ گیا !"۔ بی بی سی، اردو۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2011