مرزا محمد حسن قتیل (پیدائش :59-1758)(عربی: ديواني سنكوه) مرزامحمد حسن متخلص بہ قتیل ضلع گورداسپور، پنجاب میں بٹالہ کے رہنے والے کھتری بھنڈاری سکھ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ دیوانی سنگھ نام تھا ان کے والد کا نام درگاہی مل تھا۔ قتیل دہلی میں پیدا ہوئے۔ قتیل کے علمی اور ادبی مقام کے بارے میں مرزا غالب جو خیال کرتے تھے، وہ بیشتر بے اساس ہے، کلکتہ میں قتیل کے شاگردوں اور حامیوں کے ساتھ غالب کو جو معرکہ پیش آیا اور غالب کو اس میں جو بلاوجہ حزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس نے غالب کو قتیل سے متنفر کر دیا تھا۔ قتیل نے بیشتر کتابیں فارسی و عربی زبان، علم بیان و علم معانی پر لکھی ہیں۔[1]

دیوانی سنگھ سے محمد حسن قتیل

ترمیم

دیوانی سنگھ صوتی ذوق کا حامل تھا اور سمجھنے اور سمجھنے کی بڑی صلاحیت رکھتا تھا اور اسی وجہ سے وہ نظمیں لکھنے کا اہل بنا۔ اپنی سائنسی سطح کو آگے بڑھانے کے لیے اس نے اپنے ہاتھ سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک قابل پروفیسر کی تلاش شروع کر دی اور یقیناً وہ اصفہانی کے شہید مرزا محمد باقر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور وہ ان کے ہاتھ پر مطالعہ کرنے لگے اور وہ بحث کرنے لگے۔ اس کے ساتھ اسلامی مذہب اور شیعہ فرقے کے بارے میں - خاص طور پر - {اور اس نے محسوس کیا کہ یہ مذہب انسان کی قدر و منزلت کو بڑھاتا ہے، یہ اسے یقین اور عزت دیتا ہے اور اس کے لیے مختلف شعبوں میں اس کی زندگی کا پروگرام بناتا ہے اور ساتھ ہی اپنے اندر روح کو ابھارتا ہے۔ تعاون، خلوص، محبت اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق، وہ خدا کی طرف سے بے نظیر ہیں اور انھیں ایسے فوائد سے نوازا ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں تھے۔}(یہ جملے متعصب ہیں اور ویکیپیڈیا:معتدل نقطہ نظر کے اصول کے منافی ہیں) چنانچہ اس نے اپنا سکھ اصول چھوڑ دیا اور مذہب اسلام اختیار کیا اور اپنا نام دیوانی سنگھ سے بدل کر محمد حسن رکھ لیا اور نظموں میں اپنا چھوٹا سا نام (قتیل) چنا اور اس طرح وہ (محمد حسن) کے نام سے مشہور ہوئے۔ قتیل)۔[2][3]

مرزا قتیل سے معرکہ آرائی سفرِ کلکتہ کا ایک اہم واقعہ

ترمیم

مرزا محمد حسن قتؔیل کا شمار ہندوستان میں اپنے عہد کے مقبول اور ممتاز فارسی دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف فارسی زبان کے شاعر تھے بلکہ انھوں نے فارسی قواعد (Grammar)کی بھی دو کتابیں ’چہار شربت‘ اور ’نہرالفصاحت‘ لکھیں۔ وہ زیادہ عرصہ لکھنؤ میں رہے۔ لیکن وہ کلکتہ میں بھی بہت مقبول تھے۔ غالب کے کلکتہ پہنچنے سے دس سال پہلے قتؔیل کا انتقال ہو چکا تھا، مگر اس وقت بھی کلکتہ میں ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ غالب کے مداح اور چاہنے والے بھی کلکتہ میں موجود تھے، مگر ان کی تعداد کم تھی۔ گرچہ کلکتہ آنے سے پہلے غالب نے قتؔیل کے خلاف کچھ نہیں لکھا، مگر حقیقتاً وہ ان سے شدید نفرت کرتے تھے۔غالب کو کلکتے میں ذہنی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مرزا قتیل سے معرکہ آرائی سفرِ کلکتہ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اس ضمن میں غالب کو جس کرب سے گذرنا پڑا اس کا تھوڑا بہت اندازہ ان کی فارسی مثنوی ’’بادمخالف‘‘ کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ سفر کلکتہ کے دوران انھوں نے بنارس میں بھی قیام کیا۔ مثنوی "چراغ دیر" ان کی بنارس کی یادوں کی دستاویز ہے۔ غرض غالب نے کلکتے میں پایا کم اور کھویا زیادہ اور یوں لٹے لٹائے 29 نومبر 1829 ء کو دہلی واپس ہوئے۔ البتہ ان کا سفر کلکتہ ان کی شخصیت اور شاعری کو نیا رخ دینے میں کامیاب رہا۔[4]

ان کی کتابیں

ترمیم

اس کی نثر میں مور کے پروں کی طرح مختلف خوشنما قتیل کی ان بارہ تصانیف کا ذکر کیا گیا ہے جن میں سے بیشتر شائع ہو چکی ہیں:

  • 1۔ ہفت تماشا
  • 2۔نہر الفصاحت
  • 3۔شجرة الامانی۔ بلاغت پر یہ کتاب قتیل نے اپنے دوست سید امان علی کی خواہش پر ان کے لڑکے میر محمد حسین کے لےے لھی تھی۔ یہ چھ ابواب(فرع) پر مشتمل ہے۔ ماہیت کلمہ و اقسام آن، ماہیت کلمہ و کین، اقسام آن، اسم، فصل، حرف، ضرورت کلمہ و حذف آن در لام، اعم از آن کہ فعل باشد باحرف، ترکیب کلمات، در بیان زبان فارسی: زبان تورا بیان، امیر انیان، فارسی اہل ہند، فصاحت کلمہ، فصاحت کلام، بلاغت
  • 4۔چہار شربت: میر امان علی کے چھوٹے لڑکے میر محمد کے لئے لکھی گئی تھی۔ عروض و قافیہ، مصطلحات اہل فن، انشا و نامہ نگاری،انواع نثر، فاضلانہ، صوفیانہ، منشیانہ، انواعِ مکاتیب: رنگین، سادہ، بلیغ، مثال کے طور پر مکاتیب بھی مرقوم ہیں۔ وازگان اور دستور زبان ترکی۔
  • 5۔قانونِ مجدّد۔ برٹش میوزیم میں اس کا خط نسخہ محفوظ ہے۔ یہ عربی اور فارسی زبانوں کی صرف و نحو پر لکھی گئی ہے۔
  • دریائے لطافت: بہ اصلاً انشاء اللہ خان انشا کے نام سے شائع ہوئی ہے، لیکن اس کا دوسرا حصہ قتیل نے لکھا ہے جس میں منطق، عروض، قافیہ، معانی وبیان سے بحث کی گئی ہے۔[5][6][7]
  • 7۔خطوط، چند جلدوں میں موجود ہیں۔ معدن الفواید میں قتیل کے شاگرد خواجہ امام الدین معروف بہ خواجہ امامی نے اپنے استاد کے چند خطوط جمع کیے ہیں۔ رقعات قتیل خود قتیل نے تربیت دیئے تھے۔
  • 8۔ثمرتا البدایع بھی قتیل کے چند خطوط پر مشتمل ہے جن میں بلاغت اور فن اشنا، کے اموربیان کےے گئے ہیں۔
  • 9۔مظہرالعجائب میں نوآموزوں کے لےے مصطلحات اور الفاظ کا بیان ہے۔
  • ١٠ شوقیہ عرفانی ادب کے بارے میں ہے۔
  • 11۔ دیوان:غزلیات، ترکیب بند، ترجیع بند،مراثی، مخمس اور رباعیات پر مشتمل ہے۔
  • ١٢۔صبح بہار: تاریخی مثنوی ہے جس میں حافظ الملک کی شجاع الدولہ سے جنگ کی روئداد بیان کی گئی ہے۔

وفات

ترمیم

آپ کی وفات 1233ھ میں لکھنؤ شہر میں ہوئی ۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. مرزا محمد حسن قتیل کی ای-کتاب https://www.rekhta.org/authors/mirza-mohammad-hasan-qateel/ebooks?lang=ur
  2. ديواني سنكوه (محمد حسن قتيل) - الهند - سيخي in Arabic https://web.archive.org/web/20110812104152/http://www.aqaed.info/mostabser/biography/93/
  3. ہفت تماشا،مرزامحمدحسن قتیل،مقدمہ،ص11 https://www.rekhta.org/ebooks/haft-tamasha-ebooks?lang=ur
  4. مرزا غالب کے حالات زندگی-- مرزا قتیل سے معرکہ آرائی سفرِ کلکتہ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ https://www.urdusyllabus.com/2021/06/Mirza-ghalib-hayate-zindagi.html
  5. Ghulam Akbar، Ammara Tariq (2020-06-30)۔ "مرزا قتیل دہلوی کی اردو شاعری"۔ تحقیق نامہ (بزبان انگریزی)۔ 26 (1): 141–149 
  6. Rauf Parekh (2023-03-20)۔ "LITERARY NOTES: Darya-e-Latafat: a remarkable work on Urdu and its grammar"۔ Dawn Epaper (بزبان انگریزی)۔ Dawn.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2024 
  7. Dr Shazia Umbreen (2006-12-31)۔ "دریائے لطافت ـ اُردو کی اولین کتابِ صرف و نحو(بزبان فارسی)"۔ Journal of Research (Languages and Islamic Studies) (بزبان انگریزی)۔ 10 (1): 237–248