محمد شفیق الرحمان حقانی

مولانا محمد شفیق الرحمان حقانی گوہاٹی، صوابی کے عالم دین تھے۔

محمد شفیق الرحمان حقانی
معلومات شخصیت

خاندانی پس منظر

ترمیم

آپ 14 مئ 1948ء کو بیلہ آمازئی ضلع ہری پور میں پیدا ہوئے۔ لیکن آپ کی ساری زندگی مسلم آباد ، شیر علی کورونہ ( گوہاٹی) ، صوابی میں گذری۔ آپ پشت در پشت علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد مولانا حبیب الرحمان گوہاٹی، دادا مولانا مسعود اور پردادا مولانا میر احمد بھی اپنے دور کے جید علمائے دین تھے۔[1] آپ مشہور قارلوق ترک قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے آباؤاجداد ریاست پکھلی جو تاریخ میں پکھلی سرکار کے نام سے مشہور ہے اور جو آج کے ہزارہ ڈویژن ( ہری پور ، ایبٹ آباد ، مانسہرہ اور تورغر کے اضلاع ) اور کشمیر کے بعض علاقوں پر مشتمل تھی اور جس کا دار الحکومت گلی باغ ، مانسہرہ تھا ، کے صدیوں حکمران رہے تھے۔ یہ سلطنت 1470ء سے 1703ء تک قائم رہی تھی جو پکھلی سلطنت کے آخری سلطان، سلطان محمود خرد کی وفات کے ساتھ ختم ہوئی تھی۔[2] بارھویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب سلطان قیاس الدین سے ملتا ہے جو سلطان محمود خرد کے چھوٹے بھائی اور تناول کے والئ ( گورنر ) تھے۔ سلطان قیاس الدین بن سلطان شادمان خان ( شادم خان ) بن سلطان نصیرالدین حسین خان بن سلطان محمود خان کلاں بن سلطان غیاث الدین عبد اللہ خان بن سلطان فقیرالدین دریا خان بن سلطان شہاب الدین بابر (ریاست پکھلی کے پہلے حکمران اور سلطان عمر مرزا کے فرزند جو 1470ء کو کابل ، افغانستان سے یہاں آئے اور پکھلی پر اپنی حکمرانی قائم کی تھی)، یہ سب آپ کے آباؤاجداد اور ریاست پکھلی کے سلطان تھے۔ جب کہ 23 ویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب مشہور زمانہ فاتح امیر تیمور سے جا ملتا ہے جو تاریخ میں تیمور لنگ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔[3] پکھلی سلطنت اگرچہ 1703ء میں سواتی پٹھانوں کے ہاتھوں ختم ہوئ تھی تاہم محدود طور پر یہ 1793ء یا بعض حوالوں سے انیس ویں صدی کے آغاز یعنی سکھوں کی آمد تک قائم رہی تھی۔[4] سلطنت کے خاتمے کے بعد انقلابات زمانہ کے طور پر آپ کے آبا و اجداد کو پہلے اتلہ، گدون، صوابی، جبکہ بعد ازاں بیلہ آمازئی، ہری پور نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔ جہاں سے آپ کے والد مولانا حبیب الرحمان 1950ء کی دہائی کے آغاز میں بعض وجوہات کی بنا پر مسلم آباد، شیر علی کورونہ ، گوہاٹی، صوابی منتقل ہوئے۔[5]

تعلیم ، دینی ، تدریسی اور تصنیفی خدمات

ترمیم

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی تھی۔ کچھ عرصہ آپ کنڈاؤ مولوی صاحب آف آمازئ سے پڑھتے رہے۔ والد کی خاندان سمیت مسلم آباد ، شیر علی کورونہ ، گوہاٹی منتقلی کے بعد آپ کو پرائمری اسکول فردوس آباد ، چارباغ میں داخل کرایا گیا۔ جہاں سے آپ نے چھارم جماعت پاس کیا۔ اگرچہ آپ اپنے اسکول کے انتہائ ذہین و فطین طالب علم تھے اور آپ کے اسکول کے اساتذہ کی خواہش تھی کہ یہ بچہ اپنا عصری تعلیمی سلسلہ جاری رکھے لیکن آپ کے والد محترم جو خود جید عالم دین تھے اور علما کرام اور دینی طبقے سے بے حد محبت کرتے تھے ، اپنے بیٹے کو عالم دین بنانا چاہتے تھے۔ اس لیے اسے ایک بار پھر دینی تعلیم کی راہ پر لگایا گیا۔ ابتدائی دینی کتابیں گھر پر پڑھنے کے بعد مزید دینی تعلیم کے حصول کے لیے آپ کو اپنے زمانے کے مشہور دینی درس گاہ شیخ الحدیث و بانی جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک مولانا عبد الحقؒ کے دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک بھیج دیا گیا جہاں سے آپ نے 1965ء میں دورہ حدیث کی سند حاصل کی۔ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کی بنیاد سابق مدرس دار العلوم دیوبند شیخ عبد الحق نے 1947ء میں رکھی تھی۔ مولانا محمد شفیق الرحمان حقانی 1957ء سے 1965ء تک مسلسل آٹھ سال تک دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پڑھتے رہے۔ آپ شیخ عبد الحقؒ کے اولین اور قابل ترین شاگردوں میں تھے۔[6] دورہ تفسیر آپ نے مولانا محمد طاہر پنج پیریؒ سے آپ کے انقلابی طرز پر پڑھا. آپ مولانا محمد طاہر پنج پیری کے بھی اولین اور قابل ترین شاگردوں میں سے تھے۔ مولانا پنج پیری سے آپ نے توحید والسنہ اور رد شرک والبدعہ کا سبق سیکھا جسے آپ مرتے دم تک پڑھاتے رہے۔ آپ کے دیگر ممتاز اساتذہ کرام اور شیوخ میں مارتونگ باباجی ، مولانا عبد الحلیم زروبوی ، مفتی یوسف بونیری ، شیخ الدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ ، مولانا غلام اللہ خان راولپنڈی ، مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری گجراتی ، جو آپ کے پیر و مرشد بھی تھے ، قاضی نور محمد اور قاضی شمس الدین شامل ہیں۔ آپ کو اپنے جملہ اساتذہ کرام سے بہت پیار تھا۔ اساتذہ بھی اپنے اس ذہین ترین طالب علم سے شفقت فرماتے تھے۔ آپ کے جامعہ حقانیہ کے ایک استاد شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ آپ کے نام ایک خط میں آپ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہمیں آپ کی دینی و تدریسی خدمات پر فخر ہے۔ ہم آپ جیسے اپنے قابل اور ذہین ترین طالب علموں کو بھول نہیں سکتے“۔ علوم دین کے حصول سے فراغت کے بعد آپ مرتے دم تک مختلف دینی مدارس اور مساجد میں قرآن و حدیث اور توحید والسنہ کا درس دیتے رہے۔ آپ داعئ توحید والسنہ اور قاطع شرک والبدعہ تھے۔ توحید و سنت کی اشاعت ، شرکیات و بدعات اور غیر اسلامی و جاہلانہ و ہندوانہ رسومات اور توہم پرستانہ خیالات کا خاتمہ آپ کی زندگی کا مشن اولین تھا۔ جس میں آپ کافی حد تک کامیاب رہیں۔ آپ کی کوششوں کی بدولت آپ کے علاقے میں بہت ساری شرکیات ، بدعات ، توہمات اور جاہلانہ رسومات کا خاتمہ ہوا۔ آپ اس علاقے کے پہلے عالم دین تھے جس نے شرکیات ، بدعات اور جاہلانہ رسومات کا ببانگ دھل اور علی الاعلان رد کیا۔ قپل ازیں یہ علاقہ قبر پرستی ، شرکیات ، بدعات اور جاہلانہ رسومات کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا اور کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتا تھا۔ اس سلسلے میں آپ کے راستے میں بے شمار صغوبتیں اور مشکلات پیش آئیں لیکن آپ اللہ رب العزت اور پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کی خاطر سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ مرتے دم تک آپ نے دروس قرآن اور دروس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا۔ چالیس سال تک فی سبیل اللہ کامونکی، قلعہ دیدار سنگھ ، مسلم آباد ، گوہاٹی اور چارباغ ، صوابی میں درس و تدریس اور امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیے۔ ساتھ انتیس سال تک آپ محکمہ تعلیم خیبر پختون خوا میں معلم اسلامیات کی حیثیت سے جی ایچ ایس آدینہ ، جی ایچ ایس نمبر1 سلیم خان اور جی ایم ایس باکر ، صوابی میں اپنے فرائض سر انجام دیے۔ تاہم آپ کا زیادہ عرصہ تقریباَ پچیس سال گورنمنٹ ہائ اسکول سلیم خان نمبر1 میں گذرا۔ آپ کے ہزاروں شاگرد آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ 1965ء میں آپ نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج گوہاٹی ، صوابی میں علاقے کے بزرگوں کی مشاورت سے عید گاہ کی بنیاد رکھی جو اس علاقے کے لیے آپ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آج یہ عیدگاہ ضلع صوابی کی سب سے بڑی عید گاہ بن چکی ہے جو آج بھی آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ قبل ازیں علاقے کے لوگ اپنے اپنے مساجد میں نماز عید ادا کرتے تھے۔ آپ تیس سے زائد غیر مطبوعہ کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ یہ کتابیں زیادہ تر عربی میں ہیں۔ لیکن کچھ اردو اور فارسی میں ہیں۔ جس کی اشاعت کے لیے کوششیں کی جارہی ہے۔ آپ کو مادری زبان پشتو کے علاوہ ہندکو ، اردو ، پنجابی ، فارسی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ آپ ساری زندگی قرآن و حدیث پڑھتے پڑھاتے اور لکھتے رہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے ایک عالم دین دوست مولانا تاج الدین افغانی نے آپ کو خواب میں دیکھا تو آپ کے ہاتھ میں قلم اور کاغذ تھا اور آپ کچھ لکھ رہے تھے۔ مولانا افغانی کے پوچھنے پر آپ نے جواب دیا کہ احادیث لکھ رہا ہوں۔ آپ کے ایک چچازاد بھائی مولانا محب الرحمان نے آپ کو خواب میں دیکھا تو آپ کا چہرہ بے حد خوبصورت اور چمک رہا تھا۔ آپ نے وجہ پوچھی تو فرمایا ، بھائی یہ قرآن کی وجہ سے ہے۔ آپ کی کتاب ”رحمت الباری شرح صحیح البخاری“ انشاء اللہ جلد منظر عام پر آجائے گی۔ اس کتاب پر جامعہ بنوریہ ٹاؤن العالمیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبد الحمید خان غوری تقریظ کر چکے ہیں۔ جس میں آپ کی دینی و تدریسی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ مولانا محمد شفیق الرحمان حقانی اسم با مسمی تھے۔ انتہائ شفیق ، حق گو ، ملنسار ، خاکسار ، مہمان نواز اور غریب پرور انسان تھے۔ غریبوں ، یتیوں اور بیواؤں کی اپنی بساط سے بڑھ کر مدد کرتے تھے۔ آپ کا عوام کے ساتھ رابطہ بڑا گہرہ تھا۔ آپ لوگوں کے ہر دکھ درد اور غمی و خوشی میں برابر شریک ہوتے تھے۔ انہی اوصاف کی بدولت علاقے کے لوگ آپ سے بے حد پیار اور محبت کرتے تھے۔ آپ کو بھی اپنے علاقے کے لوگوں سے بے حد پیار تھا۔ آپ کی مصالحانہ اور مخلصانہ کوششوں سے علاقے میں موجود بہت ساری دشمنیاں اور نفرتیں دوستیوں اور محبتوں میں بدل گئیں۔ علاقے کے لوگ اور بالخصوص علما کرام آپ کا نام آج بھی عزت و احترام سے لیتے ہیں۔ علاقے کے متعدد علما کے بقول آپ استاد العلماء اور مفتیوں کے مفتی تھے۔ آپ نے مشرکین ، مبتدعین ، منکرین حدیث ، پرویزیوں اور قادیانیوں سمیت تمام باطل فرقوں کا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ کی زندگی میں کسی بھی باطل پرست کو سر اٹھانے کی جرات نہ ہوئ۔ باطل پرستوں کے ساتھ آپ کے متعدد مناظرے ہوئے جس میں باطل پرستوں کو ہر بار منہ کی کھانی پڑھی۔ آپ مجاہدین اسلام اور تبلیغی جماعت سے بہت محبت فرماتے تھے۔ ملک میں اسلامی شرعی فلاحی نظام کے نفاذ کے لیے آپ جاری اسلامی تحریکوں کے زبردست حامی تھے۔ آپ 16 جولائی 2002ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور مسلم آباد گوہاٹی کے قبرستان میں اپنے والد کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔[7][1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب روزنامہ پاکستان اسلام آباد، 16 جولائی 2004
  2. تاریخ ہزارہ، راجا ارشاد، صفحہ 71
  3. شجرہ نسب، مولانا محمد شفیق الرحمان حقانی
  4. ماہنامہ تعلیم القرآن، ستمبر 2015
  5. اشاعت التوحید والسنہ پاکستان، ایم اے تحقیقی مقالہ پشاور یونیورسٹی از عنایت اللہ خان صفحہ105
  6. سند دورہ حدیث مولانا محمد شفیق الرحمان، 1965
  7. علمائے صوابی، ضیاء اللہ جدون، صفحہ 131