محمد شہاب الدين ندوى
بيسويں صدى کے مفسر، متکلم اور مفکر جنھوں نے جديد علم کلام پر کئى اہم اور معرکہ آراء کتابيں تصنيف کيں۔ آپ کے کام کى نوعيت اور اہميت کى پيش نظر بعض علما نے آپ کو مجدد کہا ہے۔[1]
محمد شہاب الدين ندوى | ||
---|---|---|
ادیب | ||
ولادت | 1931ء بنگلور | |
وفات | 18 اپريل، 2002ء | |
اصناف ادب | علم كلام، تفسير، فقہ، قرآن اور سائنس | |
تعداد تصانیف | 100 سے زائد | |
تصنیف اول | چاند کى تسخير قرآن کى نظر ميں | |
تصنیف آخر | ميرى علمى زندگى کى داستان عبرت | |
معروف تصانیف | جديد علم کلام، قرآن حکيم اور علم نباتات، جديد علم کلام کيا ہے: ايک تعارف، سفرنامہء مصر اور فرعونيات پر ايک نظر |
مولانا محمد شہاب الدين ندوى (1932-2002) کى ولادت بروز جمعرات يکم رجب المرجب 1350ھ مطابق 12 /نومبر 1931ء کو جنوبى ہند کے شہر بنگلور دارالسرور کے ايک دينى گھرانے ميں ہوئى۔ آپ ابتدا پيشے سے تاجر تھے۔ ليکن عين جوانى کے عالم ميں ايک معاصر کى کتاب نے آپ کو کچھ اس طرح جھنجھوڑا کہ آپ اپنى کامياب تجارت کو خير باد کہہ کر تحصيل علم کے لیے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کى راہ لى۔ اور انتہائى مختصر عرصہ ميں امتيازى طور پرعا لميت کى سند حاصل کى (1962م)۔ پھر آپ ايک عرصہ تک انگريزى اور سائنسى علوم کى تحصيل ميں مستغرق ہو گئے اور ان ميں کمال حاصل کيا۔
مولانا کا موضوع
ترمیم مولانا محمد شہاب الدين ندوى کا موضوعِ خاص تفسيراور کلاميات تھا۔ اس سلسلہ ميں آپ کا کارنامہ قرآن، حديث اور جديد سائنس ميں مطابقت پيدا کرنا اور جديد سائنس کی مادى افکار ونظريات سے تطہير تھا۔ بقول مولانا سيد ابو الحسن على ندوى
’’اس ميدان ميں امام غزالى اور علامہ ابن تيميہ کے بعد مولانا محمد شہاب الدين ندوى ايک ايسے عالم تھے جنھوں نے اس ميدان ميں بڑى خدمات انجام ديں‘‘۔
تصنيفات
ترمیمقرآن اور جديد سائنس يا جديد کلاميات پر کم وبيش سو کتابيں تصنيف کيں۔ يہ تمام کتابيں فرقانيہ اکيڈمى بنگلور سے شائع ہوئيں۔ آپ کى کتب کے کئى ممالک سے بين الاقوامى ايڈيشن بھى شائع ہوکر کافى مقبول ہوئے ہيں۔ آپ کى تصنيف کردہ بعض کتابيں حسب ذيل ہيں:
کلاميات:
1. چاند کى تسخير قرآن کى نظر ميں
2. اسلام کى نشاۃ ثانيہ قرآن کى نظر ميں
3. قرآن عظيم کا نظام دلائل اور ملت اسلاميہ کى نشاۃ ثانيہ
4. قرآن حکيم اور علم نباتات
5. تخليق آدم اور نظريہء ارتقا
6. اسلام اور عصر حاضر
7. جديد علم کلام
8. ذات بارئ تعالى پر ايک نظر
9. قرآن کا نظريہء علم
10. قرآن کا فلسفہء کائنات
11. اسلام اور جديد سائنس
12. قرآن مجيد اور دنيائے حيات
13. قرآن، سائنس اور مسلمان
14. اسلام ميں علم کا مقام و مرتبہ
15. قرآن اور نظام فطرت
16. عالم ربوبيت ميں توحيد شہودى کے جلوے
17. ميرى علمى زندگى کى داستان عبرت
18. تفسير سورئہ تکوير
19. سورج کى موت اور قيامت
20. حيات ثانى کے عقيدہ پر کلوننگ کى شہادت
21. اکيسويں صدى کا جہاد قرآن عظيم کے ذريعہ
22. عالم اسلام کا احياء قرآن کے سايہ ميں (عربى﴾
23. علم آدم اور جديد سائنس (عربى﴾
24. معاد ثانى جديد سائنسى دلائل کى روشنى ميں (عربى﴾
25. عالم اسلام کى نشاۃ ثانيہ کے لیے جہاد کى اہميت (عربى﴾
26. سائنس اور ٹکنالوجى کى ضرورت و اہميت اسلامى نقطئہ نظر سے (عربى﴾
27. علم کيميا اور طبيعيات کى اہميت (عربى﴾
28. بيالوجى قرآن کى نظر ميں
29. فطرت و شريعت ميں مشابہت
30. جديد علم کلام کيا ہے: ايک تعارف
31. اسلام اور جديد عالمى نظام
32. چاند اور قيامت
33. قرآن عظيم کا نيا معجزہ اور علما کى ذمہ دارياں
34. خلافت ارض کے لیے علم کيميا اور طبيعيات کى اہميت
35. سائنسى ميدان ميں مسلمانوں کا عروج و زوال
36. قرآن کى حجت عالم انسانى پر
37. قرآن کا پيغام
38. خلافت ارض کے لیے سائنس اور ٹکنالوجى کى اہميت
39. قرآن اور سائنس ميں کيا تعلق ہے؟
40. نظريہء اشتراکيت
شرعى و معاشرتى مسائل:
1. شريعت علم اور عقل کى ميزان ميں
2. رؤيت ہلال کے لیے فلکياتى حساب معتبر ہے يا نہيں؟
3. شريعت کى معقوليت اور اس پر تحقيقى کام کى ضرورت
4. عورت اور اسلام
5. اسلام کا قانون نکاح
6. اسلام کا قانون طلاق
7. اسلام ميں زکوۃ کا نظام
8. زکوۃ کے مستحق کون ہيں؟ (تين حصے﴾
9. زکوۃ کے اجتماعى نظام کى اہميت
10. ہمارے تعليمى مسائل
11. زکوۃ اور مصالح عامہ
12. شريعت اسلاميہ کى جنگ: نفقہء مطلقہ کى روشنى ميں
13. سپريم کورٹ کا فيصلہ: حقائق و واقعات کى روشنى ميں (شاہ بانو کيس﴾
14. تين طلاق کا ثبوت
15. زکوۃ کے آٹھ مصارف اور فى سبيل اللہ
16. تعدد ازدواج پر ايک نظر
17. بيع مرابحہ اور اسلامى بنک کارى
18. نکاح کتنا آسان اور کتنا مشکل
19. جہيز ايک غير اسلامى تصور
20. ہندستان ميں ايک شريعت ہاؤس کى ضرورت و اہميت
21. سفرنامہء مصر اور فرعونيات پر ايک نظر
22. اسلامى سياست کے چند اصول
وفات
ترمیمآپ کا انتقال بروز جمعرات ٤/ صفر المظفر 1423ھ مطابق 18، اپريل 2002ء کو بنگلور ميں ہوا۔ آپ نے انتقال سے ايک دن قبل اپنى آپ بيتى مکمل کى تھى۔ اس آب بيتى کا اختتام آپ نے ان الفاظ پر کيا ہے: ’’بس مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکا ہوں۔ لہذا اب اجازت چاہتا ہوں۔ خدا حافظ۔ ع ساغر کو ميرے ہاتھ سے لينا کہ چلا ميں‘‘
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مجدد ملت حضرت علامہ محمد شہاب الدين ندوى، مرتب: جميل الرحمن ندوى، فرقانيہ اکيڈمى ٹرسٹ، بنگلور، ISBN 81-88497-17-7