محمد نیک عالم قادری
مولانا محمد نیک عالم قادری عالم ربانی، ولی کامل مراڑیاں شریف سے معروف ہیں۔
محمد نیک عالم قادری | |
---|---|
لقب | عالم دین،قادری بزرگ |
ذاتی | |
پیدائش | 1883ء |
وفات | 14 فروری1958ء |
مذہب | اسلام |
فرقہ | سلسلہ قادریہ |
مرتبہ | |
دور | جدید دور |
ولادت
ترمیمشیخ المشائخ، استاذ الاساتذہ، فقیہ اعظم محمد نیک عالم قادری 1884ء کے لگ بھگ مراڑیاں شریف میں ایک خالص علمی و مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے علوم دینیہ کی تحصیل کے لیے سالہا سال بڑی محنت شاقہ فرمائی اور پھر فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1905ء میں ایک دینی درسگاہ (جو اس وقت دنیا بھر میں جامعہ قادریہ عالمیہ کے نام سے مشہور ہے) کی بنیاد رکھی۔ اس وقت گجرات اور گرد و نواح میں درس نظامی کی کوئی درس گاہ نہ تھی۔ چنانچہ نہ صرف گرد و نواح سے بلکہ کشمیر اور سرحدی علاقوں تک سے کثیر طلبہ دین یہاں کھنچے چلے آئے تھے۔ آپ اکیلے ہی ان طلبہ کو ابتدائی قاعدہ سے لے کر درس نظامی کی آخری کتب تک تعلیم دیتے تھے۔
بیعت و خلافت
ترمیمآپ نے سلوک کی منازل طے کرنے کے لیے حجۃ الکاملین قطب الارشاد پیر سید ظہور الحسن شاہ قادری جیلانی سجادہ نشین دربار عالیہ بٹالہ شریف سے بیعت کی اور پھر آپ کے خلف ارشد غوث زمانہ پیر سید نذر محی الدین قادری جیلانی سے مزید تربیت حاصل کی اور سرکار بٹالوی نے آپ کو خصوصی اجازت و خلافت سے بھی نوازا تھا۔
اخلاق و سیرت
ترمیمعظیم عالم وفقیہ ومدرس ومبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ عبادت وریاضت اور زہد وتقوی میں بھی آپ کا مقام بہت بلند ومثالی تھا۔ تعلیم وتدریس کے علاوہ اوقات میں عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ عظیم علمی وروحانی پیشوا تھے لیکن خدا کے گھر (مسجد) کی صفائی اکثر خود کرتے تھے۔ کئی بار مسجد کی صفائی کے لیے اپنی قمیص یا چادر استعمال کرتے اور اس قمیص کو بڑے شوق سے پہنتے اور فرماتے مسجد کا غبار آتش جہنم سے نجات دلاتا ہے۔ آپ علما وسادات کا بے حد احترام کرتے تھے۔ یتیموں، مسکینوں کی پرورش میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ یتیم بچوں وبچیوں سے اپنی اولاد سے بھی زیادہ پیار کرتے تھے۔ رشتہ داروں اور ہمسایہ کے حقو ق کا خاص خیال رکھتے تھے۔ مصائب میں تعزیت کے لیے لوگوں کے گھر تشریف لے جاتے۔ قرب وجوار میں جنازہ میں ضرور شرکت کرتے اور تبلیغ دین کے لیے جہاں بھی جانا پڑتا بلا معاوضہ تشریف لے جاتے۔
شاگرد
ترمیمجن سینکڑوں حضرات نے علم دین حاصل کیا ان میں شیخ الحدیث سید محمد جلال الدین شاہ جامعہ محمدیہ بھکھی شریف، پیر محمد اسلم قادری، محمد نواز نقشبندی کیلانی، محمد فضل کریم قادری، فیض احمد مہلوی اور حضرت مولانا علی محمد کلروی چشتی گولڑوی کاشمیری اور درجنوں دیگر ممتاز دینی، علمی وروحانی شخصیات شامل ہیں۔
خطابت
ترمیمآپ نے جامع مسجد باری والی محلہ چاہ بھنڈر گجرات میں چالیس سال تک فی سبیل اللہ خطابت کے فرائض سر انجام دیے، کسی سے ایک پائی تک وصول نہیں کی۔ سید ولایت شاہ کی گجرات آمد کے بعد ہر نماز جمعہ کے بعد وعظ فرمایا کرتے تھے اور دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کو مسائل کے جواب دیتے تھے۔ پیر ولایت شاہ آپس میں ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔ نیک عالم کے وصال کی خبر سن کر پیر ولایت شاہ صاحب نے فرمایا: ’’افسوس! ہم قطب زمانہ سے محروم ہو گئے۔‘‘
وفات
ترمیمآپ 26رجب المرجب 1378ھ بمطابق 14فروری 1958ء دس بجے شب بروز ہفتہ۔ آپ کو مراڑیاں شریف کے جنوب میں جہاں آج کل جامعہ قادریہ عالمیہ ہے، میں ایک صاحب کرامات گیلانی سید صاحب کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آپ کے اسم گرامی کی نسبت سے اس جگہ کا نام ’’نیک آباد‘‘ رکھا گیا۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 07 جولائی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2017