مدیحہ گوہر
مدیحہ گوہر (پیدائش: 21 ستمبر 1956ء– وفات: 25 اپریل 2018ء) ایک پاکستانی اداکارہ تھیں۔
مدیحہ گوہر | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 21 ستمبر 1956ء کراچی |
وفات | 25 اپریل 2018ء (62 سال) لاہور |
وجہ وفات | سرطان |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | پاکستان |
شریک حیات | شاہد ندیم |
عملی زندگی | |
پیشہ | تھیٹر ہدایت کارہ ، ڈراما نگار ، مصنفہ ، ادکارہ |
اعزازات | |
پرنس کلاز ایوارڈ |
|
IMDB پر صفحہ | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیموہ 1956ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے علم فنون اور انگریزی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر لندن یونیورسٹی سے تھیٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔
کارہائے نمایاں
ترمیم1983ء میں پاکستان واپسی کے بعد انھوں نے اپنے خاوند، ڈراما نویس اور ڈائریکٹر شاہد محمود ندیم کے ساتھ لاہور میں "اجوکا تھیٹر" کی بنیاد رکھی، جہاں انھوں نے خود بھی اداکاری کے جوہر دکھائے اور متعدد اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹ بھی لکھے۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم تنظیم "اجوکا"، ایشیا اور یورپ میں فعال ہے۔ مدیحہ گوہر کے اسٹیج ڈرامے سماجی اور معاشرتی حالات و واقعات پر مبنی ہوتے تھے۔ انھوں نے پاکستان سمیت بھارت، بنگلہ دیش، نیپال سری لنکا اور برطانیہ کے بھی کئی تھیٹرز میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ فنکار ہونے کے علاوہ مدیحہ گوہر بطور سماجی کارکن بھی کام کرتی تھیں، خصوصاً حقوق نسواں کے لیے ان کی آواز ہمیشہ آواز بلند نظر آتی تھی۔ 2006ء میں انھیں نیدرلینڈ میں 'پرنس کلوڈ ایوارڈ' سے نوازا گیا اور 2007 میں انھوں نے "انٹرنیشنل تھیٹر پاستا ایوارڈ" اپنے نام کیا۔
مدیحہ معروف ڈراما نویس اور پاکستان ٹیلی ویژن کے پروڈیوسر شاہد محمود ندیم کی اہلیہ تھیں اور انھوں نے 1984ء میں لاہور میں اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی تھی جو پاکستان کی صفِ اول کی تھیٹر کمپنی ہے۔
مدیحہ گوہر کو زمانہ طالب علمی سے ہی ادکاری کا شوق تھا۔ وہ کینئیرڈ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ڈراما کلب کی بھی صدر رہیں۔
اجوکا تھیٹر کے پلیٹ فارم سے انھوں نے تین درجن سے زائد ڈرامے لکھے اور بیشتر میں خود بھی اداکاری کی۔ ان کے بیشتر ڈرامے معاشرے میں شعور اجاگر کرنے اور اصلاح کا پہلو لیے ہوتے تھے۔
اجوکا تھیٹر ہی کے پلیٹ فارم سے مدیحہ گوہر نے چند تنقیدی ڈرامے بھی لکھے۔ انھوں نے پاکستان کے علاوہ ہمسایہ ملک بھارت، بنگلہ دیش، مصر، ایران، امریکا اور برطانیہ میں بھی اپنے تھیٹرز پیش کیے۔
ادب اور ثقافت کے میدان میں اعلٰی کارکردگی کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے مدیحہ گوہر کو 2003ء میں تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا۔
اسٹیج ڈراموں کی لکھاری ہونے اور اپنی عمدہ کارگردگی پر نیدر لینڈز کی حکومت نے انھیں 2006ء میں 'پرنس کلاز ایوارڈ' جبکہ حکومتِ پاکستان نے 2014ء میں فاطمہ جناح ایوارڈ دیے۔
مدیحہ گوہر کا لکھا اور پیش کردہ تھیٹر 'برقع وگینزا' نے خاصی شہرت حاصل کی تھی جس میں انھوں نے لوگوں کے دہرے معیار اور دہرے چہروں کو اپنا مرکزی خیال بنایا۔
مدیحہ گوہر کے معاشرتی برائیوں اور انتہا پسندی پر بننے والے ڈرامے 'انی مائی دا سپنا' اور 'لو پھر بسنت آئی' بھی خاصے مشہور ہوئے۔ انھوں نے خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور معاشرتی برائیوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔
مدیحہ گوہر کچھ عرصہ درس و تدریس کے ساتھ بھی منسلک رہیں تاہم سابق فوجی صدر ضیاالحق کے دور میں انھیں سرکاری نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا اور پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کے ڈراموں پر پابندی لگا دی گئی تھی
آخری ایام
ترمیممدیحہ گوہر 25 اپریل 2018ء کو 62 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئیں۔ آپ گذشتہ 3 برس سے معدے کے کینسر میں مبتلا تھیں۔
مدیحہ گوہر کے انتقال پر ان کے ساتھی اداکار بھی غم میں مبتلا ہیں۔ اسٹیج اور تھیٹر کے اداکار سہیل احمد نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدیحہ گوہر کی موت ایک بڑا نقصان ہے جو شاید کبھی پورا نہ کیا جا سکے۔
اجوکا تھیٹر کے سیکرٹری سہیل وڑائچ نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 2015ء میں مدیحہ بھارت میں ایک اسٹیج تھیٹر کے لیے گئی ہوئیں تھیں جہاں انھیں پہلی بار تکلیف ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ تین برسوں سے معدے کے کینسر میں مبتلا تھیں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب تکلیف بڑھنے پر انھیں لاہور کے نجی اسپتال میں منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ بدھ کی علی الصباح انتقال کر گئیں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق مدیحہ گوہر نے لواحقین میں اپنے شوہر اور دو بیٹوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔
مدیحہ گوہر کی نمازِ جنازہ جمعرات کی شام لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر ادا کی گئی۔