مرجئہوہ فرقہ ہے جس کا عقیدہ ہو کہ ایمان کا تعلق محض قول اور زبان سے ہے عمل کا اس میں دخل نہیں

عقائد

ترمیم

مرجئہ کہتے ہیں کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کچھ نقصان نہیں پہنچاتا، جیسے کفر کے ساتھ نیک عمل کوئی فائدہ نہیں دیتااور کسی مومن کو آگ کا عذاب نہیں ہوگا۔

پس منظر

ترمیم

مرجئہ وہ لوگ تھے جو پہلے فتنے (شہادتِ عثمان سے صلح حسن و معاویہ) اور دوسرے فتنے (شہادتِ حسین سے شہادتِ عبداللٰہ بن زبیر تک) کے خون خرابے سے اس قدر بددل ہوئے کہ تقدیر کے عقیدے میں انتہا پسندی کا شکار ہو گئے اور بنوامیہ کے ظلم کو خدا کی رضا اور اپنی تقدیر قرار دے کر برداشت کرنے اور خارجیہ یا امامیہ یا راسخ العقیدہ اہلسنت کی طرح سیاسی و سماجی حالات کی ابتری پر بے چین ہوکر اقدامات اٹھانے سے منع کرنے لگے۔

علامہ طبری کا قول

ترمیم

ابو جعفر طبری تہذیب الآثار میں فرماتے ہیں
فَأَمَّا الْمُرْجِئَةُ الْيَوْمَ فَهُمْ قَوْمٌ يَقُولُونَ: الْإِيمَانُ قَوْلٌ بِلَا عَمِلٍ، فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ[1]
آج کل مرجئہ ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ایمان بغیر عمل کے محض قول (کلمہ شہادت) کا نام ہے لہذا نہ تم ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھو نہ ان کے ساتھ کھاؤ پیو نہ ان سے ملاقات کرو نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو اور نہ ان کی نماز جنازہ میں شریک ہو۔

ابن تیمیہ کی تشریح

ترمیم

شیخ ابن تیمیہ مرجئہ کے متعلق کہتے ہیں
ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کو کہتے ہیں۔ اور اعمال کو اس میں سے نہیں(شمارکرتے)ان مرجئہ فقہاءمیں سے ایک گروہ کوفہ کے فقہاِ اور عابد لوگوں میں سے بھی تھا۔ مگران کا قول جہم بن صفوان کے قول کی طرح نہ تھا، وہ جانتے تھے کہ اگر قدرت رکھنے کے باوجودانسان زبان سے ایمان کا اقرارنہیں کرتا۔ تو وہ مومن نہیں ہوسکتااور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ابلیس اور فرعون دل سے تصدیق کرنے باوجودکافرتھے۔ لیکن اگر وہ دل کے اعمال کو ایمان میں داخل نہ کرتے تو ان کو جہم بن صفوان کا قول لازم آتا، وہ عمل کی وجہ سے ایمان کے بڑھنے اورگھٹنے کے قائل بھی نہیں ہیں۔ لیکن اتنا وہ کہتے ہیں کہ:ایمان کا بڑھنا شریعت کے مکمل ہونے سے پہلے تھا اس کا مطلب(ان کے ہاں) یہ ہے کہ اﷲنے جب بھی کوئی آیت نازل کی اس کی تصدیق واجب ہوئی۔ تویہ تصدیق اس تصدیق میں ضم ہو گئی، جو پہلے سے تھی لیکن جب وہ چیزمکمل ہو گئی جو اﷲ نازل کر رہاتھاتو ان کے نزدیک ایمان میں تفاضل باقی نہ رہا، بلکہ تمام لوگوں کا ایمان برابر ہوا)چاہے( سابقین اولین جیسے ابوبکرو عمر کا ایمان یافاجر(اورظالم)جیسے حجاج اور ابو مسلم الخراسانی وغیرہ کا ایمان ان کے نزدیک برابر ہے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تہذيب الآثار وتفصيل الثابت عن رسول اللہ من الأخبار مؤلف: محمد بن جرير أبو جعفر الطبری
  2. کتاب الایمان، شیخ الاسلام ابن تیمیہ