مرے کالج

سیالکوٹ، پاکستان میں ایک کالج

مرے کالج (انگریزی: Murray College) پاکستان کا ایک قدیم کالج جو سیالکوٹ میں واقع ہے۔ اس کا پرانا نام اسکاچ مشن کالج تھا۔

علامہ اقبالؒ نے جس سکاچ مشن اسکول سیالکوٹ سے اپنی پرائمری، مڈل اور دسویں جماعت تک تعلیم مکمل کی تھی، اسی اسکول میں 1889ء میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ اس کالج کے پہلے پرنسپل ڈبلیوینگ سن مقرر ہوئے اور یہ کالج پرنسپل کے علاوہ صرف دو پروفیسرز پر مشتمل تھا، جن میں ایک مولوی میر حسن تھے۔ مرے کالج سیالکوٹ کا ابتدائی نام سکاچ مشن کالج تھا۔ اس کالج کے انٹرمیڈیٹ کے طلبہ نے آرٹس کے مضامین میں اپنا پہلا امتحان پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام دیا اور 1891ء کے پنجاب یونیورسٹی کے نتائج کے مطابق سکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے اولین Batchکے 6طلباء کامیاب قرار پائے۔سکاچ مشن کالج کی تاریخ میں 1893ء کا سال اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس سال محمد اقبالؒ ایک طالب علم نے فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا۔ یہی محمد اقبال مستقبل کے ڈاکٹر سر محمد اقبال تھے۔

سیالکوٹ کے تاریخی شہر اور چھاؤنی کے مابین ساڑھے بارہ ایکڑ رقبے پر مشتمل مرے کالج سیالکوٹ کو شاعر مشرق ،مفکر اسلام سر علامہ محمد اقبال کی تعلیمی درسگاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔1864میں سیالکوٹ میں گندم منڈی کے قریب شہر کی اولین درسگاہ سکاچ مشن اسکول( جسے اب گورنمنٹ کرسچن ہائی اسکول سیالکوٹ کہا جاتا ہے) کی بنیاد رکھی گئی۔ اگلے چند برس میں سکاچ مشن اسکول کے علاوہ کئی اور اسکول وجود میں آئے۔لیکن کوئی طالب علم میٹرک کے بعد تعلیم جاری رکھنا چاہتا تو اسے لاہور کا رخ کرنا پڑتا۔ اس عظیم و قدیم درسگاہ کا آغاز 1868 کو ہوا جب کہ حکومت نے 1854 میں قائم ہونے والے ضلع اسکول کو سیالکوٹ کے سکاچ مشن کے حوالے کیا اور اس کا نام ضلع اسکول سیالکوٹ کی بجائے سٹی سکاچ مشن اسکول رکھ دیا۔جس کے پہلے ہیڈ ماسٹر پادری اسماعیل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں 1871 میں اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا۔ حکومت پنجاب نے 1888 میں سیالکوٹ میں ایک کالج کے اجرا کے لیے مشن کو پیشکش کی۔لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سر جیمز لائل نے میونسپل بورڈ سیالکوٹ کے بجٹ سے رقم مختص کی اور یوں پانچ مئی 1889 کو سٹی سکاچ مشن ہائی اسکول کی عمارت میں ہی گیارہویں جماعت کی تدریس کا آغاز 12 طلبہ سے کیا گیا۔ اسی سال کالج کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق ہو گیا۔ اس زمانے میں اس کا نام سکاچ مشن کالج قرار پایا۔سکاٹ لینڈ کے ڈاکٹر جے ڈبلیو ینگسن کالج ہذا کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔ کالج کا مونوگرام پروفیسر ولیم للی نے ڈیزائن کیا۔ جب کہ ماٹو " First Things First " طے پایا۔ سید میر حسن، نرنجن داس، ہرنام سنگھ انگریزی ،فلاسفی، ریاضی، کیمیا، اردو اور طبیعیات کے مضامین کا درس دینے لگے۔ یونیورسٹی امتحان میں 11 طلبہ شامل ہوئے۔ اس وقت سیالکوٹ شہر میں مسیحی برادری کا بول بالا تھا۔ انھوں نے عیسائی مشنریوں کے اسکول شروع کیے۔علامہ اقبال اور فیض احمد فیض نے سکاچ مشن اسکول سے تعلیم حاصل کی مرے کالج کا شمار برصغیر کے اعلی تعلیمی اداروں میں رہا ہے۔

محمد اقبال نامی ایک طالب علم نے سکاچ مشن اسکول سے میٹرک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سکاچ مشن کالج میں داخلے کے لیے درخواست دی۔ یہی وہ طالب علم تھا جس نے آنے والے زمانوں میں برصغیر کے مسلمانوں کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز و محور بننا تھا۔محمد اقبال نے1893میں ایف اے میں داخلہ لیا۔ ان کا امتحان گورنمنٹ کالج لاہور میں ہوا۔ 27 اپریل 1895 کو رزلٹ آیا۔اقبال نے 570 میں سے 276 نمبر حاصل کیے۔پنجاب یونیورسٹی لاہور میں سے صرف چار طالب علم امتحان پاس کر سکے۔ دو مسلم اور دو غیر مسلم تھے۔ مرے کالج کو اپنے وجود سے سرفراز کرنے والے اس شرمیلے اور کم گو طالب علم کو آج شاعر مشرق ،ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے نام سے جانتے ہیں۔ علامہ اقبال کو شاعری اور علم سے دلچسپی کالج کے پہلے ہی سال میں شروع ہو چکی تھی۔ اقبال منزل سیالکوٹ میں آج بھی کالج کے زمانے کی چند کتابیں موجود ہیں۔کالج کے اساتذہ میں شمس العلماء مولوی میر حسن بھی شامل تھے۔ جن کی سکاچ اسکول اور کالج سے وابستگی کا عرصہ تقریبا 60 سال کے عرصے پر مشتمل ہے۔ بیسویں صدی کے آخری برسوں میں برطانوی فوج کے ایک کیپٹن مرے (Murray)نے مرتے وقت اپنی ہمشیرہ مسز کیمبل کو وصیت کے ساتھ خاص رقم دی کہ اسے مشن کے رفاہی کاموں کے لیے خرچ کیا جائے۔چنانچہ سکاٹ لینڈ کے ایک بینک میں مرے فنڈ کے نام سے فنڈ قائم کیا گیا۔کیپٹن مرے کا تعلق سیالکوٹ چھاونی سے رہ چکا تھا۔لہذا ان کے ترکے سے سیالکوٹ میں زمین خرید کر کالج کی عمارت تعمیر کی گئی اور 20 اکتوبر 1909 کو پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ سر لوئیس ڈین نے اس عمارت کا افتتاح کیا۔یوں سکاچ مشن کالج اپنی نئی موجودہ عمارت میں منتقل ہوا اور اس کا نام آں جہانی مرے(Murray) کے نام سے موسوم کیا گیا۔ جس کو آج ہم گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ کے نام سے جانتے ہیں ۔

کالج کے نشان امتیاز پر بائیں جانب کا ستارہ ان کی یاد کو تازہ کرتا ہے اور بائیں ہاتھ والا گول دائرہ کالج کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر ینگسن کی یاد میں ہے۔کالج کی تاریخ نے جب نیا موڑ لیا تو طلبہ کی تعداد 41 تھی اور پرنسپل کے منصب پر کالج کے پرانے استاد ریورنڈ جارج واخ تھے۔ جارج واخ کی بھرپور کوششوں کے نتیجے میں 1913 میں مرے کالج کو ڈگری کا درجہ ملا اس میں ڈگری کی سطح پر انگریزی ،ریاضی، فلسفہ ،تاریخ سنسکرت ،عربی اور فارسی جیسے مضامین کی تدریس کا آغاز ہوا۔1914 میں جارج واخ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر ولیم سکاٹ نے ان کے جانشین کے طور پر فرائض سنبھالے۔ان کی سربراہی میں 1915 میں مرے کالج کے ماہانہ میگزین کا اجرا ہوا۔معاشیات کی تدریس کا اغاز 1917 میں ہوا۔ڈاکٹرولیم سکاٹ کی کوششوں کے نتیجے میں پنجاب یونیورسٹی نے 1921 میں کالج کے انگلش شعبے کو بی اے آنرز کی کلاسز شروع کرنے کی اجازت دے دی۔

جان گیرٹ نے 1923 میں پرنسپل کے فرائض سنبھالے۔موصوف نے ادارے کو نئی عظمتوں سے ہمکنار کیا۔انھوں نے اپنی طویل کیریئر کے دوران کالج کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور طلبہ کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو جلا بخشنے پر خاص توجہ دی۔ ان کی اہلیہ مسز گیرٹ اور برادر نسبتی ڈاکٹر للی جو فلسفہ کے استاد تھے نے ان کی معاونت فرمائی۔ جب انھوں نے چارج سنبھالا تو کالج کے زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 180 تھی جو 1926 میں بڑھ کر 424 ہو گئی طبیعیات اور کیمیا کی تجربہ گاہیں 1926 میں تعمیر کی گئیں۔اسی سال ایف اے پری انجینئرنگ کلاسز کا آغاز کر دیا گیا۔ پرنسپل جان گیرٹ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ مرے کالج نا صرف برصغیر کے چند بہترین کالج میں شمار کیا جانے لگا بلکہ سیالکوٹ کی پہچان قرار پایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالب علموں اور اساتذہ کرام میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔پروفیسر سی ڈبلیو ٹریسلر تاریخ کے عظیم استاد تھے اور اصولوں کے پکے انسان تھے جب وہ تاریخ کی کلاس لیتے تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ان کی کلاس ختم ہوئی۔ وہ اپنے شاگردوں کو ہمیشہ پڑھنے کی طرف لے کر آتے اور کہتے کہ لائبریری جا کر کتابوں کا مطالعہ کیا کریں۔ایک جملہ ہر بار دہرایا کرتے تھے ۔" Browes In The Library "۔کالج کا نظم و نسق ٹریسلر نے سنبھال رکھا تھا ۔ مرے کالج کے سابق طالب علم ، استاد اور مشہور لکھاری خالد حسن نے اپنی کتاب "مقابل ہے آئینہ "میں لکھا ہے کہ:

"کالج کا نظم و نسق ٹریسلر نے سنبھال رکھا تھا وہ کہا کرتے تھے تم سکاٹ سے تو بچ سکتے ہو لیکن ٹریسلر سے بچ نکلنا ممکن نہیں"۔

فیض احمد نام کا ایک لڑکا 1927 میں سکاچ مشن ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد کالج میں داخل ہوا۔ مولوی سید میر حسن نے اس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بھانپ کر علامہ اقبال کی طرح اسے بھی اپنے دامن شفقت میں سمیٹ لیا۔ مرے کالج کی علمی اور تحقیقی فضا کا فیضان تھا کہ فیض احمد نام کا یہ لڑکا آگے چل کر فیض احمد فیض کہلایا اور شہرت کا حقدار ٹھہرا۔13 نومبر 1928 کو پنجاب کے گورنر کے ہاتھوں مرے کالج کے نئے ہاسٹل ریڈ ہاسٹلز کی بنیاد رکھی گئی۔شعبہ حیاتیات 1928 میں قائم ہوا۔ 1929 میں 424 طالب علم زیر تعلیم تھے۔ ماہر نباتات پروفیسر آر سی تھامس اور معروف تاریخ دان پروفیسر سی ڈبلیو ٹریسلر کالج کی ترقی کے لیے مہمیز ثابت ہوئے۔ 24 جنوری 1931 کو پہلی مرتبہ کانووکیشن ہوا۔ اور کالج ہال کو مولوی سید میر حسن کے نام سے موسوم کیا گیا۔پروفیسر للی نے 1932 میں مرے کالج کے لیے نشان امتیاز (کریسٹ) مقرر کر کے رائج کیا اور 1935 میں کالج میں گرجا گھر تعمیر ہوا۔

کالج کی گولڈن جوبلی کا جشن 1939 میں ہوا اور کالج میگزین کی خصوصی اشاعت کا انعقاد کیا گیا۔ ایم اے فلسفہ کی تدریس کا آغاز 1940 میں ہوا۔مرے کالج کی تاریخ میں 1944 کا سال یادگار رہے گا۔ اس برس 30 اپریل کو قائد اعظم محمد علی جناح مرے کالج تشریف لائے۔ مرے کالج کے صدر دروازے پر پرنسپل جان گیرٹ ،پروفیسر للی، پروفیسر سکاٹ ، پروفیسر وی ای پرائس، پروفیسر خواجہ عبد اللطیف ،پروفیسر جمشید علی راٹھور ،چوہدری اعجاز احمد صدر، عظمت اللہ خان سیکرٹری ،خواجہ محمد طفیل ،جلیل جاوید کے علاوہ یونین کی عاملہ نے استقبال کیا۔مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر خواجہ محمد طفیل کے علاوہ شیخ ضیاء الرحمان، جنرل سیکرٹری مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن عبد السلام بٹ ،چوہدری محمد اسلم اف گنڈے والی ،ریاض قریشی، محمد اصغر سودائی وغیرہ کھڑے تھے۔ قائد اعظم کی آمد سے پہلے پروفیسر وی ای پرائس اور پرنسپل جان گیرٹ نے طلبہ یونین کے صدر اور سیکرٹری کے علاوہ صدر ایم ایس ایف خواجہ محمد طفیل کو اپنے آفس میں بلا کر سختی سے تلقین کی کہ کوئی بد نظمی پیدا نہ ہو۔پورے انتظام اور وقار کے ساتھ قائد اعظم کا استقبال کیا جائے۔صدر دروازے کے دائیں اور بائیں طرف تمام طلبہ قطار میں کھڑے رہے۔ محمد ارشد طہرانی اپنی کتاب" قائد اعظم کا دورہ سیالکوٹ "میں رقم طراز ہیں کہ قائد اعظم گاڑی سے باہر تشریف لائے تو سب سے پہلے آگے بڑھ کر پرنسپل جان گیرٹ نے قائد اعظم سے مصافحہ کیا اور آپ کو طلائی ہار پہنایا۔پھر کالج سٹاف ارکان سے باری باری تعارف کرایا گیا۔ جب کہ دو رویہ قطار میں کھڑے طلبہ نے قائد محترم پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے استقبال کیا۔قائد اعظم کے ساتھ جو لوگ شامل تھے ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں: نواب افتخار حسین ممدوٹ صدر پنجاب مسلم لیگ ،چوہدری نصیر احمد ملہی صدر استقبالیہ کمیٹی،سید مرید حسین شاہ سیکرٹری استقبالیہ کمیٹی اور آغا ذو الفقار علی خان سالار نیشنل گارڈ۔ مرے کالج کے صدر دروازے کے بالکل سامنے میر حسن ہال کا مرکزی دروازہ ہے۔ استقبالیہ سے فارغ ہو کر قائد اعظم محمد علی جناح، جناب پرنسپل ،طلبہ یونین اور عہدے داران کے ساتھ سید میر حسن ہال میں داخل ہو گئے۔پورا حال نعرہ تکبیر اور قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ قائد اعظم کا خطاب انگریزی میں تھا۔جس کا ترجمہ صدر اجلاس سردار عبدالرب نشتر نے کیا۔قائد اعظم محمد علی جناح نے 30 اپریل 1944 کو مرے کالج سیالکوٹ کے میر حسن ہال میں طلبہ سے خطاب کیا اور فرمایا:

" آپ محنت، لگن، پوری توجہ اور تندہی کے ساتھ حصول تعلیم کے لیے کوشاں رہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کریں کہ اعلی تعلیم یافتہ طبقہ ہی مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالے گا۔جس کے لیے ابھی سے تیاری کی ضرورت ہے۔ انشاء اللہ مستقبل قریب  میں ہم منزل مقصود کو پا لیں گے اور راستے میں حائل ہر رکاوٹ ہٹا دی جائے گی۔ ایمان اتحاد اور نظم کے بنیادی اصولوں پر سختی سے کاربند ہو کر اپنی متحدہ کاوشوں سے آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گذر جائیں گے۔"

قائد اعظم نے کالج کی انتظامیہ اور پرنسپل کا خصوصی شکریہ ادا کیا جنھوں نے مرے کالج ایسے عظیم و قدیم تعلیمی ادارے سے خطاب کرنے کا موقع دیا۔ کیمیا کی تدریس 1944 میں ڈگری کے طلبہ کے لیے وسیع کردی گئی۔تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں 1947 کو قیام پاکستان کے روپ میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔دسمبر 1947 میں میگزین کا آزادی نمبر شائع ہوا۔مرے کالج کی لائبریری 1949 کو اپنی موجودہ عمارت میں منتقل ہوئی اور "جان گیرٹ میموریل لائبریری" کے نام سے موسوم کی گئی۔قیام پاکستان کے بعد 1947 میں کالج کے پانچویں پرنسپل ڈاکٹر لیزلی سکاٹ نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں پیدا ہونے والے لیزلی سکاٹ کالج کے تیسرے پرنسپل ولیم سکاٹ کے فرزند تھے۔ انھوں نے بھی اپنے والد کی طرح مشکل حالات میں کالج کا انتظام سنبھالا۔ پروفیسر آر سی تھامس نے کالج کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔انھوں نے الہ اباد یونیورسٹی سے ایم ایس سی حیاتیات کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1929 میں بطور لیکچرار مرے کالج میں ملازمت اختیار کی۔1956 میں کالج کی بانی کونسل نے کالج کو پاکستان عیسائی مشن کے حوالے کر دیا اور یوں آر سی تھامس کو پرنسپل بنا دیا گیا سٹاف روم اور بی ایس سی کیمیا کی تجربہ گاہ 1959 میں تعمیر ہوئی۔کالج کے قیام کی ڈائمنڈ جوبلی 1960 میں منائی گئی۔شعبہ اسلامیات کا 1962 میں اجرا ہوا۔ شماریات کی تدریس اور ایم اے انگریزی کا آغاز 1964 میں ہوا۔ڈاکٹر ایف ایس خیراللہ 1964 میں کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ وہ انگریزی زبان کے استاد اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ کمرشل پریکٹس کے شعبے کا آغاز 1965 میں ہوا۔1966 میں ایم اے اردو کی تدریس کا آغاز ہوا۔ اور اس سال سکاٹ ہاسٹل تعمیر ہوا۔1969 میں بی ایس سی کے لیے تجربہ گاہیں اور معاونت بصری کے لیے جدید ترین عمارت تعمیر کی گئی۔ نیا جمنیزیم 1970 میں تعمیر کیا گیا۔ جس میں اندرون خانہ کھیلوں اور تن سازی اور ورزش کی جدید ترین سہولیات فراہم ہیں۔ مرے کالج کی انتظامیہ کے پیش نظر کالج کو سائنس کالج میں تبدیل کرنے کے ضمن میں عربی، فارسی، تاریخ ،اردو ادب جیسے مضامین اور آنرز کی تدریس کو ختم کر دیا گیا۔ساتھ ہی مالی معذوری کے باعث ایم اے اردو ،معاشیات اور انگریزی کی کلاسز ختم کر دی گئیں۔جس کی بنا پر طلبہ کی تعداد کم ہو کر 1085 رہ گئی۔

حکومت پاکستان کے حکم کے تحت 1972 میں پاکستان میں دوسرے نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ مرے کالج کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔یکم ستمبر 1972 کو مرے کالج نے گورنمنٹ کالج کی حیثیت اختیار کر لی۔ پروفیسر امان اللہ خاں آسی ضیائی رامپوری نے عارضی طور پر پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔ بعد ازاں حکومت کے فیصلے کی روشنی میں مرے کالج کے ایک سابق طالب علم اور استاد ڈاکٹر ونسنٹ اے داس کو پرنسپل بنا دیا گیا۔ ایم اے انگریزی کی کلاسز کا آغاز 1978 ،ایم ایس سی نفسیات کا 1985 اور ایم اے اردو کی کلاسز کا آغاز 1986 میں ہوا۔نباتیات اور حیوانیات کے مضامین کی ڈگری تک وسعت ہوئی۔ پنجاب کے گورنر نے گورنمنٹ مرے کالج میں تقریبا 17 لاکھ روپے کی لاگت سے ایک بلاک تعمیر کروایا جس کو کالج انتظامیہ نے اپنے عظیم سپوت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے نام سے منسوب کر دیا۔اپریل 1988 میں پرنسپل ونسنٹ اے داس کے استاد پروفیسر احمد رضاصدیقی کا پرنسپل کی حیثیت میں تقرر ہوا۔یوں سابقہ ایک صدی پر محیط علمی سفر میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان کو پرنسپل مقرر کیا گیا۔

1996 میں شعبہ نفسیات کے صدر پروفیسر آغا افضال علی خان گورنمنٹ مرے کالج کے نئے پرنسپل بنے۔1998 میں ایک نجی کمپنی نے گورنمنٹ مرے کالج میں کمپیوٹر کا شعبہ قائم کیا۔1998میں شعبہ کیمسٹری کے صدر پروفیسر ارشد صدیقی پرنسپل مقرر ہوئے۔وہ2002 تک گورنمنٹ مرے کالج کے پرنسپل کے حیثیت سے کام کرتے رہے۔2002میں تجربہ کار استاد پروفیسر ریاض صادق نے گورنمنٹ مرے کالج کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔انھوں نے کالج کی بہتری کے لیے بہت اچھے کام کیے۔ستارہ بٹ کمپیوٹر لیب کا اضافہ کیا۔سٹاف روم اور کلاسز کے لیے نیا فرنیچر فراہم کیا۔ مولوی میر حسن ہال کی تزئین وآرائش کی گئی۔ان کے بعد پروفیسر قمر ملک 2005 میں کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ان کے دور میں چار سالہ بی ایس پروگرام کا آغاز ہوا۔ان کی ٹرانسفر کے بعد پروفیسر جاوید اختر بااللہ نے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔ انھوں نے بی ایس ڈگری کے چار سالہ پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ان کے دور میں 14 شعبہ جات میں چار سالہ بی ایس پروگرام مارننگ اور ایوننگ شفٹ کامیابی سے جاری رہا۔نومبر 2020 میں ان کی ٹرانسفر کے بعد ڈاکٹر محمد نواز پرنسپل مقرر ہوئے اور تاحال وہ اس عہدے پر اپنے فرائض منصبی سر انجام دے رہے ہیں ۔ مرے کالج سیالکوٹ کے سابق طالب علم شیخ بشارت اقبال نے اپنی جیب سے خصوصی فنڈ مہیا کیے۔ فزکس اور کیمسٹری کی سائنس تجربہ گاہوں کی تزئین و آرائش کروائی ۔ اسی طرح مرے کالج کی مسجد کی ازسرنو تعمیر وکشادگی اور تزئین وآرائش کے لیے 70 لاکھ روپے کی خطیر رقم عطا کی۔شیخ بشارت اقبال نے مستحق طلبہ و طالبات کے لیے بھی لاکھوں روپے کے مالی وظائف عطا کیے ۔

کالج لائبریری میں جولائی 2023 میں گوشہ اقبال و فیض کے نام سے تصویری گیلری کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس گوشے میں رکھی گئی اقبال وفیض کی تمام نادر و نایاب تصاویر مہر الیاس، ایسوسی ایٹ پروفیسر ،شعبہ اردو ،مرے کالج سیالکوٹ نے فراہم کیں۔

134 سالوں پر محیط شاندار روایات کے قابل فخر ورثے کے ساتھ گورنمنٹ مرے کالج علمی و تدریسی خدمات کی تیسری صدی میں قدم رکھ چکا ہے۔ 1899 سے لے کر 2023 تک کالج ہذا میں درجہ ذیل حضرات پرنسپل کے عہدے پر اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہے۔ ۔

ڈاکٹر جے ڈبلیو ینگسن 1889تا 1891

پروفیسر جارج واخ 1891 تا 1914

ڈاکٹر ولیم سکاٹ 1914تا 1923

پروفیسر جان گیرٹ 1923 تا 1947

پروفیسر ڈی ایل سکاٹ 1947 تا 1956

پروفیسر آر سی تھامس 1956 تا 1964

ڈاکٹر ایف ایس خیر اللہ 1964 تا 1972

ڈاکٹر ونسنٹ سے داس 1972 تا 1988

پروفیسر احمد رضا صدیقی 1988 تا 1992

پروفیسر اے ڈی نسیم 1992 تا 1996

پروفیسر آغا افضال علی خان 1996 تا 1998

پروفیسر محمد ارشد صدیقی 1998 تا 2002

پروفیسر ریاض صادق 2002 تا 2005

پروفیسر قمر ملک 2005 تا 2011

پروفیسر جاوید اختر بااللہ 2011 تا 2020

ڈاکٹر محمد نواز 2020 تاحال

گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ پاکستان کا نہایت قیمتی اثاثہ ہے۔جو معاشرے میں برداشت اور بھائی چارے پر مبنی صحت مند رجحانات کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ اردو کے ادیب اساتذہ میں مولوی سید میر حسن،پروفیسر یوسف سلیم چشتی ،پروفیسر محمد دین بھٹی،پروفیسر امان اللہ آسی ضیائی رام پوری، پروفیسر انور جمال، ڈاکٹر جمشید علی راٹھور ،پروفیسر یحیی امجد ، حفیظ الرحمن احسن ،ڈاکٹر ملک حسن اختر ،پروفیسر خواجہ سعید الحسن ،محمد اقبال منہاس، محمد اکرم رضا ،پروفیسر یوسف نیر، پروفیسر محمد امین طارق،پروفیسر محمد سرور اور پروفیسر مہر الیاس وغیرہ قابل ذکر اساتذہ ہیں۔ مرے کالج کے شعبہ اردو کے پہلے صدر نشین مولوی سید میر حسن کو " شمس العلماء " کا خطاب ملا۔ مولوی میر حسن کے ایک ہونہار طالب علم ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو سر کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ مولوی میر حسن کے ایک اور قابل فخر شاگرد کو حکومت روس کی طرف سے "Lennon Prize For Peace "سے نوازا گیا۔

شعبہ لسانیات و ادبیات اردو کے طلبہ و طالبات تحقیق وتنقید میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں ۔ شعبہ اردو کی طرف سے ایم۔اردو کی سطح پر درج ذیل مقالات قلم بند کیے گئے ہیں ۔

خواجہ عبد الحمید عرفانی احوال و آثار مقالہ نگار ضعید احمد نگران مقالہ پروفیسر محمد امین طارق

آثم مرزا احوال و آثار مقالہ نگار امتیاز یوسف نگران مقالہ پروفیسر محمد امین طارق

پروفیسر امان اللہ خاں آسی ضیائی رام پوری احوال و آثار مقالہ نگار امت المتین قریشی نگران مقالہ پروفیسر محمد امین طارق

مرے کالج کے ادیب اساتذہ مقالہ نگار طلعت نثارخواجہ نگران مقالہ پروفیسر محمد امین طارق

مرے کالج میگزین ایک تحقیقی جائزہ مقالہ نگار ناہید خاں نگران مقالہ پروفیسر محمد امین طارق

مرے کالج کے اہل قلم اساتذہ مقالہ نگار شمائلہ حجاب نگران مقالہ پروفیسر محمد امین طارق

آغا وفا ابدالی شخصیت اور فن مقالہ نگار نورین عارف نگران مقالہ ڈاکٹر عارف ثاقب

بشیر ساجد حیات اور ادبی خدمات مقالہ نگار فضہ سحر نگران مقالہ پروفیسر محمد امین طارق

سیالکوٹ میں اقبال شناسی مقالہ نگار نبی احمد نگران مقالہ پروفیسر محمد امین طارق

تاب اسلم شخصیت اور شاعری مقالہ نگار ذوبیہ چوہدری نگران مقالہ پروفیسر یوسف نیر

اسلم ملک شخصیت اور فن مقالہ نگار میمونہ اقبال نگران مقالہ پروفیسر یوسف نیر

سیالکوٹ میں افسانہ نگاری مقالہ نگار عائشہ اسلم نگران مقالہ پروفیسر محمد اسحاق باجوہ

پروفیسر یوسف نیر شخصیت وفن مقالہ نگار کلثوم نواز نگران مقالہ پروفیسر ندیم اسلام سلہری

امین خزیں سیالکوٹی بحیثیت شاعر مقالہ نگار صائمہ بشیر نگران مقالہ پروفیسر مہر الیاس

رشید آفریں حیات اور شاعری مقالہ نگار صنم طاہرہ نگران مقالہ پروفیسر مہر الیاس

مرے کالج میگزین مفکر کی اشاعت کی ذمہ داری شعبہ اردو کے سپرد کی جاتی ہے۔ مرے کالج میں نصابی وہم نصابی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے اور طلبہ و طالبات کی تنقیدی تخلیقی صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کے لیے تین مجالس قائم کر رہی ہیں ۔

مجلس فیض انچارج پروفیسر مہر الیاس

مجلس غالب انچارج پروفیسر سجاد حیدر بھٹی

مجلس اقبال انچارج پروفیسر ندیم اسلام سلہری

گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ کے شعبہ اردو کے پاس کردہ یا فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پنجاب کے گورنمنٹ تعلیمی اداروں اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز میں بطور اردو استاد کے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جن میں پروفیسر ناہید خاں ، پروفیسر حمیرہ مقبول ،پروفیسر خالدہ سلطانہ نگار ،پروفیسر فوزیہ سجاد ،پروفیسر خزینہ الماس، پروفیسر آصف بشیر سلہری، پروفیسر سجاد منیر گیلانی پروفیسر مہر الیاس ،پروفیسر زاہد محمود ،پروفیسر شاہد اختر منتظر ،پروفیسر سجاد بھٹی، پروفیسر ندیم اسلام سلہری ،پروفیسر اویس ایوب بٹ، پروفیسر کلیم انجم ،پروفیسر یاسر ذیشان، پروفیسر بابر پطرس ،پروفیسر نبی احمد، پروفیسر انتظار گیلانی ،پروفیسر عارف مسیح اور پروفیسر مہک اشرف شامل ہیں یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ تہذیبوں کے درمیان مکالمے کے فروغ میں غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں اور یہی ہمارے آج اور ہمارے درخشندہ کل کی امانت ہیں۔

کالج لائبریری:

مرے کالج کی 50 سالہ جوبلی 21 جنوری 1939 میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں لائبریری کی ضرورت پر بھی غور کیا گیا اور جوبلی فنڈ مقرر کیا گیا۔ اس جوبلی فنڈ میں 433 افراد نے تین ہزار 94 روپے چار آنے اٹھ پائی کی رقم دی۔1939 میں کالج کے ایک سابق طالب علم رائے بہادر سین کے ہاتھوں جوبلی لائبریری کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس وقت دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی۔اس لیے کچھ وجوہات کی بنا پر لائبریری تعمیر نہ ہو سکی۔لہذا لائبریری کالج کی مرکزی عمارت کے ایک کلاس روم میں قائم کر دی گئی سیالکوٹ کو اب یہ وقار حاصل ہے کہ گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ میں علامہ اقبال لائبریری موجود ہے۔ جس سے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کرام علمی و ادبی استفادہ کرتے ہیں۔ شروع میں کالج کے صدر دروازے کی بائیں طرف ایک چھوٹی سی لائبریری ہوا کرتی تھی جسے چرچ لائبریری کہا جاتا تھا بعد میں اسے کالج لائبریری کہا جانے لگا۔1949 میں لائبریری کو سابق پرنسپل جان گیرٹ کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔دسمبر 1949 میں پرنسپل ڈی ایل سکاٹ کی موجودگی میں جان گیرٹ میموریل لائبریری کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت لائبریری میں 40 ہزار سے زائد کتب و رسائل موجود ہیں شعبہ اردو کے طلبہ و طالبات کے ادبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے الگ سے گوشہ اقبال کے نام سے کمرہ مختص کیا گیا ہے جہاں صرف اقبالیات اور ادبی کتب کا ایک عمدہ ذخیرہ موجود ہے۔

مرے کالج میگزین "مفکر"

کالج کا پہلا میگزین نومبر 1915 کو ریورنڈ میک کینی پیٹرسن کے ہاتھوں شائع ہوا جو بعد میں ریورنڈولیم کے لمبی چھٹی پر جانے کی بنا پر قائم مقام پرنسپل بنے۔جب کہ مجلے کے مدیران پرمانند ایم اے لالا امرناتھ باسن ایم اے اور جان گیرٹ ایم اے تھے۔ اس وقت یہ مجلہ 12 صفحات پر مشتمل تھا جن میں سے 11 انگریزی اور ایک صفحہ اردو کا تھا۔ جس میں اردو کی ایک نظم "کسی کا انکسار" شامل کی گئی جو جی ایم طور کی لکھی ہوئی تھی۔ 16 جنوری کو شائع ہونے والے پرچہ میں ایک اشتہار دیا گیا جس کا عنوان" Wanted advertisment "تھا۔ جس میں خصوصاً کھیلوں کا سامان بنانے والوں کو اشتہار بازی کی دعوت دی گئی تھی۔گورنمنٹ مرے کالج کی خاصیت اور انفرادیت اس کا میگزین بھی ہے۔ آغاز میں اس کا نام " مرے کالج میگزین "تھا۔ بعد ازاں مفکر کا نام دیا گیا جو 108 سالوں سے اشاعت پزیر ہو رہا ہے۔اس عرصے کے دوران میگزین کے بہت سے خاص شمارے بھی منظرِ عام پر آئے ۔ جن میں مولوی میر حسن نمبر 1930 ،اقبال نمبر 1975،1949، 1977 ،مزاح نمبر فروری 1954 ،افسانہ نمبر جنوری 1959، صد سالہ نمبر 1991،غالب نمبر1993 ،پاکستان گولڈن جوبلی نمبر 1997 شامل ہیں۔

یادگاری ڈاک ٹکٹ

ترمیم

پاکستان کے ڈاک ٹکٹ 18دسمبر 1989ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے مرے کالج سیال کوٹ کے قیام کی سوویں سالگرہ کے موقع پر ایک خوبصورت یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرأ کیا جس پر اس کالج کی عمارت کی تصویر شائع کی گئی تھی۔ اس ڈاک ٹکٹ پرعربی میں قرآن پاک کی آیت ’’علم الانسان مالم یعلم‘‘ اورانگریزی میں 100 YEARS OF MURRAY COLLEGE SIALKOT 1889-1989 کے الفاظ تحریرتھے۔ اس ڈاک ٹکٹ کی مالیت چھ روپے تھی اور اسے عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیا تھا

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم