مسیحی صلیب (christian cross) صلیب کا ایک علامتی نشان ہوتا ہے۔ مسیحی عقیدہ کے مطابق یسوع مسیح کو ایسی صلیب پر قتل کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نشان مسیحیت کی علامت بن چکی ہے۔

ایک مسیحی صلیبی علامت
صلیب

عام طور سے صلیب مسیحیت کے ساتھ وابستہ ہے لیکن صلیب کی علامت کو بہت ساری قدیم تہذیبوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ قدیم مصر، ہندوستان اور امریکا کے انڈین باشندوں میں یہ مختلف مذہبی علامتوں کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے لیکن اس کی سب سے بڑی اور دیرپا اہمیت مسیحیت ہی میں ہے۔ یہ یسوع کے سولی پر چڑھنے اور ساری انسانیت کی نجات کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ہر گرجا گھر میں اس کا ہونا ضروری ہے۔ کسی کو خیر و برکت کی دعا دینے کے لیے اس کے سینہ پر اشارہ کے ذریعے صلیب بنائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسی صلیبیں بھی ہوتی ہیں جن پر یسوع کی مصلوب تصویریں یا مجسمے بنے ہوتے ہیں۔

صلیب کا استعمال مسیحیت کے ابتدائی زمانہ سے ہے۔ مسیحی مذہب کے جتنے بھی آثار ملے ہیں ان میں صلیب ضرور موجود ہے۔ مغربی ملکوں کی قدیم صلیبوں پر یسوع کو ایک حکمران کی طرح تاج اور شاہی جامہ پہنے دکھلایا جاتا تھا۔ عہد نشاۃ ثانیہ میں یسوع کی تصویریں صلیب پر وفات پاتے ہوئے بنائی گئیں اور رومی کاتھولک مسلک نے انھی کو اپنا لیا اور اس کے بعد سے صلیب رومی کاتھولک پیروؤں کی عوامی اور نجی زندگی کا ایک اہم جز بن گئی ہے۔

پروٹسٹنٹ مسلک میں عام طور پر صلیب کو مذہبی اغراض کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ صلیبیوں (Crusaders) نے جب یروشلم اور مسلمانوں پر چڑھائی کی تو ان کے عَلم کا نشان صلیب ہی تھا۔ مشرق اور بعض دوسرے ملکوں میں صلیب کی مختلف شکلیں استعمال کی جاتی ہیں۔ صلیب پر سولی چڑھانے کا طریقہ مشرق قریب میں بہت قدیم زمانہ سے رائج تھا۔ رومی حکمرانوں نے اسے وہیں سے لیا۔ وہ یہودیوں اور دوسرے باغیوں کو سزا دینے کے لیے سولی کا طریقہ استعمال کرتے تھے۔ اس میں ملزم کو خود صلیب اٹھا کر لے جانا ہوتا تھا اور بعض وقت لٹکانے کے بعد اس کے ہاتھ پیر بھی توڑ دیے جاتے تھے۔[1][2]

حوالہ جات

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم