مشرف سنگین غداری کیس پرویز مشرفاور وفاقی حکومت کے مابین اہم کیس ہے جس کا فیصلہ مورخہ 17دسمبر کو خصوصی عدالت نے سنایا۔ خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں مشرف کو آئین شکنی، 2007ء،ایمرجنسی لگانے اور ججز کو نظر بند کرنے کے الزامات ثابت ہوئے[1]۔ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ ،نذر اکبر سندھ ہائی کورٹ اور شاہد کریم لاہور ہائی کورٹ پر مبنی 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا[2]۔ مورخہ 19 دسمبر کو کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا گیا جس کے مطابق جنرل کو پانچ بار سزائے موت دینے اوراگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے[3]۔سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ 169 صفحات پر مشتمل ہے جس میں دو ججز جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس شاہد فضل کریم کے فیصلے کے 125 صفحات اور جسٹس نذر اکبر کے اختلافی نوٹ کے 44 صفحات شامل ہیں[1]۔جسٹس وقار سیٹھ نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ افواجِ پاکستان کی کور کمانڈرز کمیٹی سمیت 'ہر وہ باوردی شخص جو جنرل ریٹائرڈ مشرف کے ساتھ تھا اور ان کی حفاظت کرتا رہا مشرف کے جرم میں برابر کا شریک ہے[3]۔'

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "روزنامہ جنگ" 
  2. "جیو نیوز" 
  3. ^ ا ب "بی بی سی" 

بیرونی ربط

ترمیم

مشرف سنگین غداری کیس تفصیلی فیصلہ