عربی، فارسی اور اردو لسانیاتی قواعد کی رو سے مصدر، اجزاۓ کلام کے تین اجزاء (اسم، فعل اور حرف) میں سے جز اسم کی ایک قسم تسلیم کی جاتی ہے اور اس سے مراد ایسے اسماء کی ہوتی ہے کہ جن سے ماضی، حال اور مستقبل کے زمانوں کا اظہار کیے بغیر کسی فعل کی نشان دہی ہوتی ہو۔ یعنی مصدر ایک ایسا کلمہ ہوتا ہے جس میں کوئی کام کرنے کا مفہوم تو معلوم ہوتا ہو لیکن اس کام کے بارے میں یہ نا معلوم ہوتا ہو کہ وہ کس زمانے میں کیا گیا۔ انگریزی میں اس کا قریبی متبادل infinitive لیا جا سکتا ہے گو کہ عربی (اردو) قواعد کی رو سے infinitive، مصدر کا مطلق متبادل بھی نہیں ہے۔

مثال کے طور پر اگر اردو کا لفظ ؛ ---- کھایا / کھایا تھا ---- استعمال کیا جائے تو اس سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ کھانے کا فعل انجام پا چکا ہے یعنی زمانہ ماضی کا اظہار ہوتا ہے، جبکہ اگر کہا جائے ---- کھاتا ہے / کھا رہا ہے ---- تو اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کھانے کا فعل موجودہ زمانے حال میں انجام پا رہا ہے یا پاتا ہے، اسی طرح اکر کہا جائے کہ ---- کھائے گا ---- تو اس سے کھانے کا عمل مستقبل میں واقع ہونے کا پتا چل جاتا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں مثالوں میں بالترتیب ماضی، حال اور مستقبل کے زمانے ظاہر ہو رہے ہیں۔ اگر اسی اسم کو، کھانا، کی صورت میں استعمال کیا جائے تو اس سے یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کھانے کا فعل انجام دینے کی بات ہو رہی ہے لیکن کلمہ، کھانا، کہنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کھانے کا فعل کس زمانے میں انجام دیا گیا اور اسی صورت کو مصدر کہا جاتا ہے۔ قواعد کی رو سے مصدر کو فعل اور دیگر کلماتِ گفتگو کی اصل الکلمہ فراہم کرنے والا کلمہ کہا جا سکتا ہے یعنی اسی لغتی اصل کے اشتقاق سے دیگر فعل وجود میں آتے ہیں۔