مصطفیٰ بن محمد بن احمد بن موسیٰ بن داؤد عروسی ( 1798ء - 1876ء ) جامعہ ازہر کے شیوخ کے سلسلہ میں بیسویں امام تھے اور معزز عروسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ چودھویں امام، محمد بن احمد العروسی کے فرزند اور گیارہویں امام، احمد بن موسیٰ بن داؤد ابو الصلاح العروسی کے پوتے تھے۔ [1]

مصطفى العروسي
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1798ء (عمر 225–226 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد Muhammed al-Arusi   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان العروسي
مناصب
امام اکبر (20  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1864  – 1870 
ابراہیم بن محمد بن احمد شافعی  
مہدی عباسی (شیخ ازہری)  
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ الازہر   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نشو و نما اور تعلیم

ترمیم

شیخ مصطفیٰ العروسی ایک علمی گھرانے میں پروان چڑھے۔ انہوں نے اپنے والد، جامعہ ازہر کے شیخ امام محمد بن احمد العروسی، سے قرآن پاک حفظ کیا۔ بعد ازاں وہ جامعہ ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں کے نامور علماء سے تعلیم حاصل کی، جن میں شیخ ابراہیم الباجوری، شیخ احمد بن عبد الجواد السفطی، اور شیخ حسن القویسنی شامل ہیں۔ یہ سب جامعہ ازہر کے جید شیوخ میں شمار ہوتے تھے۔ ایسے جلیل القدر اساتذہ سے تعلیم پانے والا یقیناً وسیع علم اور گہری بصیرت کا حامل ہوتا ہے۔[2] [3]

شیخ الازہر کے منصب پر فائز ہونا

ترمیم

جب بیماری اور بڑھاپے نے امام ابراہیم الباجوری کو کمزور کر دیا اور وہ اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہو گئے، تو ان کے امور کی انجام دہی کے لیے چار نائبین مقرر کیے گئے۔ ان نائبین کی سربراہی شیخ مصطفیٰ العروسی کر رہے تھے۔ جب شیخ الباجوری کا انتقال ہوا تو 1281 ہجری / 1864 عیسوی میں شیخ مصطفیٰ العروسی کو شیخ الازہر کے منصب پر فائز کیا گیا۔ یہ منصب ان کے والد اور دادا بھی پہلے سنبھال چکے تھے۔[4]

معزولی

ترمیم

1287ھ / 1870ء میں، خدیوی اسماعیل نے شیخ مصطفیٰ العروسی کو شیخ الازہر کے منصب سے معزول کرنے کا حکم جاری کیا۔ یہ جامعہ ازہر کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ کسی شیخ کو بغیر کسی واضح وجہ کے معزول کیا گیا۔ بعض مؤرخین کے مطابق، خدیوی نے یہ اقدام اس خوف کے تحت کیا کہ شیخ العروسی اپنی قوت کے ذریعے خدیوی کے خلاف بغاوت کر سکتے تھے، کیونکہ اس دور میں عوام کی معاشی حالت بدترین ہو چکی تھی، جب کہ خدیوی خود شاہانہ اور عیش پرست زندگی گزار رہے تھے۔[5]

تصانیف

ترمیم

شیخ مصطفیٰ العروسی نے کئی اہم تصانیف چھوڑی ہیں، جن سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ ان میں شامل ہیں:

  1. . حاشیہ علی شرح الشیخ زکریا الأنصاری للرسالة القشيرية في التصوف - چار جلدوں پر مشتمل یہ حاشیہ تصوف کے موضوع پر ایک گرانقدر اضافہ ہے۔
  2. . کشف الغمَّة وتقييد معاني أدعية سيد الأمة - نبی اکرم ﷺ کی دعاؤں کے معانی پر مشتمل ایک اہم کتاب۔[6]
  3. . القول الفصل في مذهب ذوي الفضل - ایک جامع فقہی و اصولی تصنیف۔
  4. . العقود الفرائد في بيان معاني القصائد - قصائد کے معانی اور مفاہیم کی وضاحت پر مشتمل۔
  5. . مسائل أحكام المفاكهات في أنواع الفنون المتفرقات - مختلف موضوعات پر مشتمل علمی مباحث۔
  6. . الأنوار البهية - ایک روشن علمی تصنیف۔
  7. . الفوائد المستحسنة - منتخب فوائد پر مبنی ایک نادر کتاب۔
  8. . الهداية بالولاية فيما يتعلق بقوله تعالى "وما أرسلنا قبلك من رسول ولا نبي" - قرآن کی آیت کی تفہیم پر مشتمل ایک تحقیقی تصنیف۔

وفات

ترمیم

شیخ مصطفیٰ العروسی جمعہ کے دن، 9 جمادی الاولی 1293 ہجری / 3 جون 1876 عیسوی کو وفات پا گئے۔ اپنی زندگی کے آخری چھ سال انہوں نے شدید ذہنی کرب اور بیماری کے عالم میں اپنے گھر میں گزارے۔ یہ سب ان مظالم کا نتیجہ تھا جو ان پر ڈھائے گئے تھے۔ وہ ایک عظیم شخصیت کے مالک، بلند ہمت اور عظیم النفس عالم تھے، لیکن بیماری اور ظلم و ستم نے ان کی حالت مزید ابتر کر دی، اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔[7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "الشيخ العشرون.. مصطفى العروسي (شافعي المذهب)"۔ sis.gov.eg (بزبان عربی)۔ 09 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اگست 2020 
  2. مشيخة الأزهر [مردہ ربط] آرکائیو شدہ 2020-03-05 بذریعہ وے بیک مشین
  3. "الشيخ العشرون.. مصطفى العروسي (شافعي المذهب)"۔ sis.gov.eg (بزبان عربی)۔ 09 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اگست 2020 
  4. تاريخ الحكام والسلالات الحاكمة آرکائیو شدہ 2015-05-09 بذریعہ وے بیک مشین
  5. دار الأفتاء المصرية آرکائیو شدہ 2020-03-05 بذریعہ وے بیک مشین "نسخة مؤرشفة"۔ 5 مارس 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 أبريل 2020 
  6. حاشية العالم الأستاذ السيد مصطفى العروسي المسماة بنتائج الافكار القدسية في بيان معاني شرح الرسالة القشيرية - الشيخ زكريا الأنصاري1/1/2007
  7. مجلة الأزهر، عدد شعبان 1438