مظہر الحق قاسمی جہازی
مولانا مظہر الحق قاسمی جہازی
ترمیممولانا مظہرالحق قاسمی اپنے دور کے مشہور عالم دین اور ملی کاموں سے دل چسپی رکھنے والے شخص تھے۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے تلمیذ رشید اور جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ (گڈا، صاحب گنج، پاکوڑ، جامتاڑا، دمکا اور دیوگھر)کے ناظم اعلیٰ تھے ۔
ولادت
ترمیمآپ 1934 میں اہل علم کی بستی جہازقطعہ ضلع گڈا جھارکھنڈ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کانام دلاور حسین پردھان تھا جو بہت اچھے اور وسیع المشرب انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی جائداد کے بھی مالک تھے
تعلیم و تربیت
ترمیمابتدائی تعلیم بشن پور بانکا بہار اور پرسہ گڈا جھارکھنڈ کے پرائمری اسکولوں میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب بگھاکول اور حضرت مولانا ومفتی عظمت اللہ صاحب راہا وغیرہ سے حاصل کی۔ پھر مزیدعلمی تشنگی بجھانے کے لیے حضرت مولانا محمد منیرالدین صاحب قاسمی جہازی کے ایماپرمدرسہ گلزار حسینہ اجراڑہ میرٹھ یوپی چلے گئے اور وہاں مولانا جہازی اور دوسرے اساتذہ کرام سے کافیہ، شرح تہذیب اور دوسری کتابیں پڑھیں ۔ پھر اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دارلعلوم دیوبند کا رخ کیا اور 1954 میں وہاں سے سند فضیلت حاصل کی ۔ شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھی۔ جامع المنقولات و المعقولات حضرت مولانا ابراہیم صاحب بل یاوی، شیخ الادب حضرت مولانا اعزازعلی امروہوی، حضرت مولانا سید فخرالحسن مرادآبادی اور حضرت مولانا محمد معراج الحق صاحب سے مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھیں۔
درسی ساتھی
ترمیمآپ کے درسی ساتھیوں میں فقیہ الاسلام حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام ؒ قاضی القضاۃ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ تھے ان کے ساتھ مولانا مرحوم نے شرح جامی پڑھی، حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی سابق استاذ دار العلوم دیوبند حضرت مولانا اظہر صاحب رانچوی بانی ومہتمم مدرسہ حسینہ رانچی خلیفہ مجاز حضرت شیخ الاسلام ۔ حضرت مولانا ابو الحسن صاحب سمتی پوری شیخ الحدیث گجرات خلیفہ شیخ الاسلام۔وغیرہ وغیرہ یہ سب آپ کے درسی ساتھی تھے ۔
درس وتدریس
ترمیمفراغت کے بعد تدریسی زندگی کا آغاز دمکاکے یتیم خانہ سے ہوا ،یہاں آپ سے ابتدائی کتابیں متعلق رہیں۔ آپ نے دوسال تک یہاں خدمت انجام دی۔ اس کے بعد مفتی عظمت اللہ صاحب اور قاری مصلح الدین پورنوی کے مشورے سے پورنیہ بہار چلے گئے؛ لیکن بچند وجوہ یہاں ایک سال سے زیادہ قیام نہ کرسکے اور مہرنا بانکا تشریف لے گئے ۔ وہاں تقریباً دو یاڈھائی سال تک درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔اس کے بعد مولانا شفیع الرحمن صاحبؒ چانچوی کے حکم پر امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بہ حیثیت مبلغ تشریف لے گئے۔وہاں آپ نے کئی سالوں تک یہ فریضہ انجام دیا۔ پھر گاؤں والوں کا اصرار اور مولانا محمد منیرالدین صاحب جہازی کی دعوت پر گاؤں آئے اور مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہازقطعہ گڈا میں آپ کا تقر ہوا ۔ اور درجہ عربی سوم تک کی کتابوں کی تدریس آپ سے وابستہ ہو گئی۔آپ نے یہ فرائض کئی سالوں تک انجام دیے۔ اسی اثنامیں مدرسہ قمرالاسلام کوریانہ گڈا میں ہیڈ مولوی (صدرمدرس) کے عہدے پر آپ کی تقرری ہوئی اور وہاں دوسال رہے ۔ اس کے بعد 1966 میں مدرسہ ضیاء العلوم کرماہاٹ بانکا میں ہیڈ مولوی ( صدرمدرس) ہی کے عہدے پر فائز ہوئے اور ریٹائرڈ ہونے تک اسی مدرسہ میں خدمات انجام دیتے رہے۔آپ نے صدر مدرس کے عہدہ پر رہتے ہوئے تقریبا 31 سال تک پوری پابندی اور انہماک کے ساتھ تعلیمی و تربیتی خدمات انجام دیں ۔ اس عرصہ میں ہزاروں کی تعدادمیں آپ سے فیض یافتہ شاگرد اور شاگردہ تیار ہوئے جو آج ملک کے مختلف جگہوں پرخدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس فیض یافتہ شاگردہ میں میری والدہ محترمہ بھی تھی جو 26 رمضان المبارک 1439 مطابق 11 جون 2018 بروز پیر صبح 6بجے میاگنج بھاگلپور میں انتقال کر گئی۔
بیعت و ارشاد
ترمیمآپ نے ابتدا میں شیخ طریقت فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ سابق صدر جمعیت علماءے ہند سے مسترشدانہ تعلق استوار کیا اور ان سے خاطرخواہ استفادہ کیا ۔ ان کی وفات کے بعد شیخ طریقت حضرت مولانا سید محموداسعد مدنی صاحب جنرل سکریڑی جمعیت علماءے ہند سے بیعت کی اور آخیر عمر تک آپ ہی سے اصلاح و تربیت کا تعلق رکھا۔
ملی کارنامے اور جمعیت علمائے ہند سے وابستگی
ترمیممولانا نے درس وتدریس کے ساتھ ملی وسماجی کاموں میں بھی بھر پور حصہ لیا، چنانچہ17؍ مئی1973ء بروز جمعرات کی انتخابی میٹنگ میں آپ کو جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔24؍ مئی 1975ء کی شام مجلس عاملہ کی ایک نشست ہوئی، جس میں حسب سابق آپ کو ناظم اعلیٰ برقرار رکھا گیا ۔ 12؍ مئی 1978ء کو ہونے والی ایک خصوصی میٹنگ میں جمعیت علما کے زیر اہتمام شرعی پنچایت کا قیام عمل میں آیا جس کے بنیادی اراکین میں آپ کا نام شامل کیا گیا۔ مرکزی حکومت نے اقلیتی کمیشن قائم کرنے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ ’’حکومت اقلیتوں کے مسائل پر ہمدردانہ غور وخوض کرکے شکایات کو دور کرے گی‘‘۔ اس اعلان کے تحت مرکزی جمعیت علمائے ہند کی طرف سے صدر ضلع جمعیت کو یہ اختیار دیا گیا کہ ضلع کے کارکنوں ، ذمہ داروں اور ہمدردوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ، جو اقلیتوں کے مسائل پر رپورٹ تیار کرے اور حکومت کے سامنے پیش کرے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے مختلف اضلاع کی طرح جمعیت علمائے ضلع سنتھال پرگنہ نے بھی اہم شخصیات پر مشتمل ایک ’’ضلع اقلیتی کمیٹی‘‘ تشکیل دی ، جس میں آپ نے ایک رکن ہونے کی حیثیت سے فعال رول ادا کیا۔مورخہ 17؍ مئی 1981ء بروز اتوار بوقت 4؍ بجے شام زیر صدارت جناب ماسٹر شمس الضحیٰ صاحب صدر جمعیت علمائے ضلع سنتھال پرگنہ، بمقام مسجد و مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ جہاز قطعہ مجلس عاملہ و مجلس منتظمہ کا مشترکہ اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں انتخابی کارروائی بھی ہوئی جس میں آپ کو نائب صدر اور ساتھ ہی جمعیت علمائے ریاست بہار کا نمائندہ رکن بھی بنایا گیا۔6؍ مئی 1984ء بروز اتوار بعد نماز ظہر بمقام روپنی مدرسہ ،عاملہ و منتظمہ کی مشترکہ میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ کی تجویز نمبر (3) کے تحت تعلیم بالخصوص دینی تعلیم کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے تعلیمی بورڈ کے سلسلہ میں ایڈھاک کمیٹی کی تشکیل کی گئی ، تاکہ آئندہ باضابطہ بورڈ کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ اس کمیٹی کے ارکان میں بھی آپ کا نام شامل کیا گیا۔ اس میٹنگ کی آخری نشست میں انتخاب ہوا، جس میں آپ کو دوبارہ نائب صدر چنا گیا۔
جمعیت علمائے سنتھال پرگنہ کے مرکزی عہدوں کا تجزیہ کیا جائے تو ، آپ از 17؍ مئی1973ء تا17؍ مئی 1981ء ناظم اعلیٰ بنائے گئے۔ بعد ازاں از 17؍ مئی 1981ء تا 12؍ اپریل1987ء نائب صدر رہے ۔ 19؍ جون 2004 ء میں آپ کو ریاستی جمعیت علمائے بہار کا رکن منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ علاقے کے متعدد مدرسوں ، مسجدوں اور اسکولوں کے صدراور ممبر بھی رہے۔ ان عہدوں اور ذمہ داریوں کے توسط سے آپ نے ہر ممکن قومی و ملی خدمات انجام دینے کی کوشش کی۔
وفات
ترمیمآپ کی وفات16 جمادی الاول 1440ھ مطابق 23جنوری 2019 بروز بدھ تقریباً ساڑھے نو بجے صبح بسنت رائے بلاک میں واقع جہازقطعہ میں طویل علالت کے بعد ہوئی ۔ اسی روزساڑھے چار بجے شام جہازی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ نماز جنازہ مرحوم کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد ثناءالحق قاسمی نے پڑھائی ۔