انگریزی زبان کے نامور صحافی

مظہر علی خان

معلومات شخصیت
باب ادب

نواب زادہ مظہر علی خان 6 جون 1917ء کو واہ کینٹ ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔نواب مظفر علی خان ان کے والد تھے۔نواب مظفر علی خان پنجاب کے وزیر اعلی سر سکندر حیات کے کزن تھے۔طاہرہ مظہر علی خان سر سکندر حیات کی صاحبزادی ہیں۔1942 میں مظہر علی خان اور طاہرہ کی شادی ہوئی۔سر سکندر حیات تو اپنی بیٹی کی شادی دولتانہ فیملی میں کرنا چاہتے تھے ،لیکن طاہرہ نے دولتانہ فیملی میں شادی کرنے سے انکار کر دیا۔انھوں نے کہا کہ وہ تو مظہر علی خان سے شادی کریں گی۔سر سکندر حیات بیٹی کی ضد کے سامنے ہار مان گئے اور اس طرح ان دونوں کی شادی ہو گئی۔طاہرہ مظہر علی خان بھی ایک منفرد اور کمال کی انسان ہیں،سر سکندر حیات جیسے جاگیردار کی بیٹی ہونے کے باجود وہ پہلی خاتون ہیں جو کمیونسٹ پارٹی کی باقاعدہ رکن بنیں۔طاہرہ کا تعلق لیفٹ ونگ سے ہے۔ایک رہنما تھے جن کا نام میاں افتخار الدین تھا ،1946ء میں انھوں نے پروگریسو پیپر لیمیٹڈ کی بنیاد رکھی ،انھوں نے مظہر علی خان سے رابط کیا ،کہا کہ وہ ان کے اخبار کو جوائن کر لیں ،اس طرح مظہر علی خان صحافی بن گئے۔1946ء میں پروگریسو پیپر لیمیٹڈ نے پاکستان ٹائمز نکالا۔فیض احمد فیض اس اخبار کے ایڈیٹر تھے۔مظہر علی خان نے بطور نیوزایڈیٹر زمہ داریاں سنبھال لیں۔اس کے بعد 1947ء میں پاکستان بن گیا ،پاکستان ٹائمز اس زمانے میں سب سے بڑا اخبار تھا ،جس کا بڑا نام تھا۔اس کے بعد ہوا کچھ یوں کہ پاکستان بننے کے تین سال بعد راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جبر کا نشانہ بنے ،انھیں گرفتار کرکے جیل بند کر دیا گیا۔اس طرح مظہر علی خان فیض کی جگہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بن گئے۔1955ء میں فیض صاحب جیل سے رہا ہوئے۔اس طرح فیض پھر پاکستان ٹائمز کا حصہ بن گئے۔لیکن ایڈیٹر کی زمہ داریاں پھر بھی مظہر علی خان سر انجام دیتے رہے۔1959ء میں ایوبی مارشل لاٗ کا نفاذ ہو گیا۔پروگریسو پیپر لیمیٹڈ کو قومیا لیا گیا ،پاکستان ٹائمز کو بند کر دیا گیا۔مظہر علی خان کو کہا گیا کہ پاکستان ٹائمز کو وہ رن کرسکتے ہیں،لیکن شرط یہ ہے کہ انھیں آمر ایوب خان کے لیے کام کرنا ہوگا ،مظہر علی خان نے استعفی دے دیا اور کہا کہ وہ مارشل لاٗ حکومت کے ساتھ کام نہیں کرسکتے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نظریاتی طور پر لیفٹسٹ اور مارکسٹ ہیں،یہ ان کا نظریاتی مسئلہ ہے ،اسی وجہ سے وہ مارشل لاٗ کے حق میں بطور صحافی کام نہیں کرسکتے۔پھر کیا تھا مظہر علی خان جیسا عظیم صحافی اگلے 16 برس تک بے روزگار رہا۔اس عرصے میں انھیں کوئی کام کی نوکری نہ مل سکی۔ادھر بیوی خود ایک کمیونسٹ اور لیفٹسٹ تھی ،خواتین کے لیے بھی کام کررہی تھی۔لیکن میاں بیوی نے صبر و تحمل سے کام کیا۔اسی زمانے میں ڈاکٹر کمال حسین جو بعد میں بنگلہ دیش کے وزیر اعلی بنے ،انھوں نے ہفت روزہ بنگالی فورم نکالا ،مظہر علی خان اس ہفتہ روزہ بنگالی فورم کے لیے لکھتے رہے۔اسی زمانے میں ڈان کے ایڈیٹر الطاف گوہر بھٹو صاحب کی حکومت میں گرفتار کر لیے گئے۔اس طرح مظہر علی خان ڈان اخبار کے ایڈیٹر بن گئے۔اس کے بعد معاملات چلتے رہے ،1975ء میں مظہر علی خان نے اپنا رسالہ نکالا ،جس کا نام ویو پوئنٹ تھا۔ویو پوئنٹ ترقی پسند اور لیفٹسٹ سوچ کا ترجمان تھا۔اس رسالے کی عالمی اہمیت بن گئی۔لیکن بدقسمتی سے اسی زمانے میں جنرل ضیاٗ نے بزور طاقت مارشل نافذ کر دیا۔ویو پوئنٹ کے ایڈیٹر مظہر علی خان کو گرفتار کر لیا گیا۔کچھ عرصے کے لیے رہا ہوئے تو انھیں دوبارہ ایک سازش کے تحت 1981ء میں پھر گرفتار کر لیا گیا۔مظہر علی خان کے مالی حالات اس زمانے میں بہت بدترین ہو چکے تھے ،انھوں نے اپنا بہت بڑا گھر بیچ دیا اور چھوٹے سے فلیٹ میں رہنے لگے۔جو گھر بیچا تھا ،اسی سے ویو پوئنٹ کو چلانے کی کوشش کی۔اسی زمانے میں سنسرشپ کی پابندیاں بھگتی ،جیل گئے ،جیل میں تشدد برداشت کیا۔1992ء میں پیسوں کی کمی کے باعث ویو پوئنٹ کو بند کر دیا گیا،

26 جنوری 1993ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور گلبرگ 3 کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

حوالہ جات

ترمیم