معاہدہ امن سکھ خالصہ حکومت پنجاب کی طرف سے مہاراجا رنجیت سِنگھ کے وزیر میاں دھیان سنگھ کی سربراہی میں سکھ خالصہ دربار لاہور اور ریاست سدھنوتی کے آخری نواب سردار شمس خان سدوزئ کے مابین 4 ستمبر 1820ء کو تہ پایا [1]

Portrait of Sudhan tribal chief, Shams Khan in the Sameete-Sudhozai

پس منظر معاہدہ امن

ترمیم

معاہدہ امن ریاست سدھنوتی سے سکھ خالصہ حکومت کو دوسری سکھ سدھنوتی جنگ کے تسلسل میں کرنا پڑا [2] پہلی سکھ سدھنوتی جنگ کا آغاز سکھ خالصہ حکومت نے اپنے عروج زمانہ حکومت میں اس وقت کیا جب سکھ پنجاب سے خیبر پختون خواہ جمرود تک جمرود سے سائل سندھ تک اپنی حکومت کو توسیع دینے میں کامیاب ہوئے اسی دوران سکھ خالصہ نے سب سے پہلے پہل ریاست جموں پر حملہ کیا پھر 2 کشمیر اور 3 ریاست پونچھ، 4 ریاست راجوری، 5 ریاست بھمبر ، 6 ریاست مظفرآباد پر حملہ کر کے ان 6 ریاستوں کو چالیس دنوں میں فتح کر کے جموں کشمیر کی ساتویں ریاست سدھنوتی پر 4 دسمبر 1919ء کو حملہ کیا ریاست سدھنوتی پونچھ ریاست کے انتہائی شمال میں بلند و بالا پہاڑی ریاست تھی جس کا 50 فیصد حصہ گھنٹے جنگلات اور 96 فیصد پہاڑی مشکل ترین جغرافیائی حدود پر مشتمل ریاست تھی جہاں پنجاب کے سکھوں کو ایک ماہ تک پے در سدوزئیوں سے شکست سامنا کرنا پڑا [3] جس کے باعث مہاراجا رنجیت سنگھ نے جموں کشمیر کی ان چھ ریاستوں کی فتح کو ہی غنیمت جانتے ہوئے ریاست سدھنوتی سے مزید کسی قسم کی کوئی جنگ کیے بے غیر لاہور خالصہ کی راہ لی [4] چنانچہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے لاہور سکھ خالصہ دربار پہنچ کر اپنی فتح کا جشن منایا اور اسی جشن میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے جموں کا علاقہ اپنے جرنیل میاں گلاب سنگھ اور ریاست پونچھ گلاب سنگھ کے بھائی میاں دھیان سنگھ کو بطور انعام جاگیر عطاء کی مہاراجا رنجیت سنگھ کی طرف سے ڈوگرہ میاں گلاب سنگھ اور اس کے بھائی میاں دھیان سنگھ کو جب جموں اور پونچھ جیسی دو جاگیریں ملی تو ڈوگرہ برادران پر لازم ہو گیا کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے ریاست سدھنوتی کو ہمیشہ کے لیے اپنے راستے سے ہٹائیں تاکہ مستقبل میں ریاست سدھنوتی بھی ان کی جاگیر بن کر سکھ خالصہ حکومت کے زیر اہتمام آ جائے جس سے ان کی جاگیریں بھی ہمشیہ کے لیے محفوظ ہو جائیں چنانچہ انھی حالات و خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈوگرہ برادران نے مہاراجا رنجیت سنگھ کو ریاست سدھنوتی پر دوسری مرتبہ چڑھائی کرنے کے لیے کاہل کیا [5]چنانچہ سکھ خالصہ نے ایک سو پچاس پہاڑی توپوں بہم بیس ہزار لشکر جرار کے ساتھ 12 جون 1820ء کو ریاست سدھنوتی پر دوسرا حملہ کیا تو سکھ خالصہ فوج کی توپوں نے سدوزئیوں کو تمام میدانی علاقوں میں شکست دی جس کے جواب میں سدوزئیوں نے پہاڑیوں پر مورچہ بند دفاعی جنگ لڑنا شروع کر دی جس کے باعث سکھ خالصہ کی فتح شکست میں بدل گئی سدوزئیوں کی پہاڑوں پر مورچہ بند گوریلا کارروائیوں نے سکھ خالصہ کو جانی اور مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ جنگ کو بھی طویل تول دینا جب شروع کیا تو سکھ خالصہ کو مجبوراً سدوزئیوں سے معاہدہ امن کرنا پڑھا جسے نواب سدھنوتی نے منظور کر لیا سکھ خالصہ اور ریاست سدھنوتی کے معاہدہ امن میں یہ تہ پایا کہ سدھنوتی کا دار الحکومت منگ سدھنوتی کی بجائے لاہور خالصہ دربار میں ہو گا جسے لاہور سکھ خالصہ حکومت میں باقاعدہ رکنیت حاصل ہو گی اور سدھنوتی کے حکمران نواب شمس خان لاہور خالصہ دربار سے ہی ہمور ریاست سدھنوتی چلا گا چنانچہ اس طرح ریاست سدھنوتی اور سکھ خالصہ پنجاب کی یہ دوسری لڑائی جنگ بندی ہو کر معاہدہ امن میں تبدیل ہو گئی [6][7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Victoria Schofield (2010-05-30)۔ Kashmir in Conflict: India, Pakistan and the Unending War (بزبان انگریزی)۔ Bloomsbury Publishing۔ ISBN 978-0-85773-078-7 [مردہ ربط]
  2. Sir Alexander Cunningham, Four Reports Made During The Years 1862-63-64-65, (The Government Central Press, 1871), Volume I, Page 13.[1]
  3. Hastings Donnan, Marriage Among Muslims: Preference and Choice in Northern Pakistan, (Brill, 1997), 41.[2]
  4. Manohar Lal Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ India: Kashmir History Publications۔ صفحہ: 51 
  5. Christopher Snedden۔ "Jammu and Jammutis"۔ Understanding Kashmir and Kashmiris۔ HarperCollins India 
  6. Christopher Snedden۔ "Jammu and Jammutis"۔ Understanding Kashmir and Kashmiris۔ HarperCollins India 
  7. Iffat Malik (2002)، "Jammu Province"، Kashmir: Ethnic Conflict International Dispute، Oxford University Press، صفحہ: 62، ISBN 978-0-19-579622-3