معقل بن ضان
حضرت معقل ؓبن ضان صحابی رسول تھے۔ فتحِ مکہ میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب اور اپنے قبیلہ کے علمبردار تھے۔
حضرت معقل ؓبن ضان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیممعقل نام، ابو عبد الرحمن کنیت، نسب نامہ یہ ہے، معقل بن سنان بن مطہر بن عرکی ابن فتیان بن سبیع بن بکر بن اشجع اشجعی۔
اسلام و غزوات
ترمیمفتح مکہ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے، فتحِ مکہ میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب اور اپنے قبیلہ کے علمبردار تھے۔[1]
عہد فاروقی
ترمیمکوفہ آباد ہونے کے بعد یہاں گھر بنا لیا، حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مرتبہ مدینہ آئے بڑے صاحبِ جمال تھے، کسی (غالباً عورت) نے ان کے حسن و جمال کی تعریف میں
اعوذ برب الناس من شر معقل اذا معقل راج البقیع رجلا
میں لوگوں کے رب سے معقل کے شر سے پناہ مانگتی ہوں، جب وہ گیسو سنوار کر بقیع کی طرف نکلتے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے یہ شعر سنا تو ان کو مدینہ بدر کر کے، بصرہ بھیج دیا۔
یزید کی مخالفت
ترمیممعقل، یزید کے طور و طریقوں کی وجہ سے اس کے سخت خلاف تھے، امیر معاویہ نے جب یزید کی بیعت کے لیے ممالک محروسہ سے وفود طلب کیے، تو معقل بھی مدینہ والوں کے ساتھ اظہارِ بیعت کے لیے بھیجے گئے، شام جانے کے بعد ایک دن یزید کے ندیم خاص مسلم بن عقبہ کے سامنے یزید کے متعلق اپنے خیالات ظاہر کیے کہ میں یزید کی بیعت کے لیے جبریہ بھیجا گیا ہوں، میری آمد کو قضائے الہی کے سوا کیا کہا جائے، جو شخص مے خوار ہو، محرمات کے ساتھ نکاح کرتا ہو وہ کس طرح بیعت کا مستحق ہے؟ اسی سلسلہ میں انھوں نے یزید کی تمام برائیاں بیان کر ڈالیں اور مسلم سے کہا کہ میں نے تم سے یہ باتیں رازدارانہ کی ہیں اس لیے ان کو اپنی ہی ذات تک محدود رکھنا، مسلم نے کہا امیر المومنین سے تو نہ کہوں گا لیکن جب موقع ملے گا، تمھاری گردن اڑا دوں گا۔ [2]
دنیوری کا بیان ہے کہ معقل نے کہا تھا کہ میں مدینہ واپس جا کر فاسق و فاجر یزید کی بیعت توڑ کر مہاجرین میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا، اس وقت مسلم ان پر قابو نہ پاسکا، مگر قسم کھالی کہ جب بھی تم میرے قابو میں آؤ گے تمھاری گردن اڑادوں گا۔[3]
شہادت
ترمیممدینہ آنے کے بعد معقل نے جو کچھ کہا تھا، کر دکھایا، جب عبد اللہ بن زبیرؓ نے حجاز میں خلافت کا دعویٰ کیا اور یزید نے ان کے مقابلہ کے لیے فوجیں روانہ کیں، تو معقل ابن زبیرؓ کے ساتھ ہو گئے اور جب ابن زبیرؓ نے شکست کھائی، تو مدینہ کے لوگوں کے ساتھ یہ بھی گرفتار ہوئے اور مسلم کے سامنے پیش کیے گئے، معقل پیاسے تھے، مسلم نے کہا معقل پیاسے معلوم ہوتے ہو، انھوں نے اثبات میں جواب دیا، مسلم نے بادام کا شربت بنانے کا حکم دیا اور شربت پلا کر کہا اب کبھی کسی مفرح چیز کی خواہش کرنے کا موقع نہ ملے گا، یہ کہہ کر ان کی گردن مارنے کا حکم دیا، فوراً اس حکم کی تعمیل ہوئی اور معقل حق پرستی کے جرم پر بنی امیہ کی ستم آرائی کا شکار ہو گئے۔[4]
فضل وکمال
ترمیمفضل وکمال اورمذہبی حیثیت کا اندازہ علامہ ابن عبد البر کی اس رائے سے کیجئے، کان فاضلا تقیا شابا۔ مغفل فاضل، پاکباز جوان تھے۔[5]
حوالہ جات
ترمیم