جبریہ
وہ فرقہ جو انسان کو مجبور محض مانتا ہے۔ اور کہتا ہے۔ کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ تقدیر الہٰی کے تحت ہوتا ہے۔ انسان خود کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اس فرقے کی بنیاد جہم بن صفوان نے رکھی۔ بخاریہ، قلابیہ اور بکریہ بھی جبریہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں قدریہ یعنی معتزلہ انسان کو مختار مطلق مانتے ہیں۔ وہ جو چاہے کرے اسے پورا اختیار ہے۔ اشعری کہتے ہیں کہ انسان کچھ مختار ہے اور کچھ مجبور۔ معتزلہ اشاعرہ کو بھی جبریہ کہتے ہیں۔
فلاسفہ مغرب کا ایک گروہ بھی جبر کا قائل ہے۔ یونانی مفکر دیمقراطیس کا خیال تھا کہ کائنات کی ہر شے قانون قدرت کے ماتحت ہے اور اس سے انحراف نہیں کرسکتی۔ برطانوی فلسفی ہابس کا نظریہ تھا کہ کائنات اور انسان کی ہر حرکت قانون اسباب کے تحت ہے۔ نفسیات کے علما کا خیال ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مختار نہیں ہے۔ بلکہ ذہنی اور جسمانی حالات اس کے ارادے اور عمل کو جس رخ کو چاہتے ہیں موڑ دیتے ہیں۔