معلقات
عشر معلقات‘(شاعری کے دس مجموعے ) وہ دس قصیدے تھے جو خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکائے گئے تھے‘ یہ ان دس بڑے شاعروں کے تھے جنھیں عرب صاحب معلقہ کہتے تھے۔
عشر اور سبع معلقات
ترمیمجگہوں پر دس معلقات کا ذکر ہے اور کئی جگہ سات معلقات کا ذکر ہے ہر معلقہ کا تعلق ایک شاعر سے ہے
معاشرے مقام
ترمیمدس معلقات کی نظمیں عربوں کی فصاحت و بلاغت کا نمونہ ہیں وہ انھیں ریشمی کپڑوں پر لکھتے، کعبہ کی دیواروں پر لٹکاتے اور یہ لٹکانا شعرا کی عظمت کا اعتراف ہوتا، یہاں تک کہ عرب کے بڑے میلوں میں انھیں پڑھا جاتا تھا۔
دوسروں کو گونگا کہنا
ترمیمتاریخ رطب اللسان میں ہے جس دوراور جس سماج و معاشرہ میں رسالتمآب مبعوث ہوئے ہیں وہ زمانہ جاہلیت کے باوجود فصاحت و بلاغت اور شعر گوئی کے اوج کا دور ہےـ یہ وہ زمانہ ہے جب عرب اپنے مقابلہ میں ساری دنیا کو " عجم " یا گونگا تصور کرتے تھے ـ جب فصاحت و بلاغت کے مقابلوں کے لیے عام طور سے میلوں کا انتخاب ہوتا تھا " بازار عکاظ " شعر و ادب کے مقابلوں کے مطابق فصیح و بلیغ کلام کے ساتھ ان ادبی مظاہروں میں شریک ہوتے تھے ـ فکروں کی پستی اور خیالات کی محدودیت کے باوجود " دس معلقات " عرب کا سنہرا شاہکار ہے ـ
امتیازی مقام
ترمیمواضح رہے کہ اس زمانہ کے شعرا گمراہی پھیلانے میں پیش پیش تھے۔ امرا القیس تو عرب شعرا کا امام سمجھا جاتا تھا اور عشر معلقات جو خانہ کعبہ میں آویزاں کیے گئے تھے ان میں اس کا کلام ایک امتیازی شان رکھتا تھا مگر اس کی شاعری بے ہودہ گوئی، عشق بازی اور فحش بیانی کی بد ترین مثال ہے۔
قرآن کا چیلنج
ترمیمعشر معلقات عربی زبان کی فصاحت و بلاغت انتہا کو ظاہر کرتے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے شعرا میں باہمی مقابلے ہوتے تھے اور مقابلہ میں بہترین قرار دیے جانے والے شعرا کا کلام کعبہ کے دروازہ پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ عشر معلقات اسی دور کی یادگار ہے۔ جو آج بھی متداول ہے۔ ایسے ہی شعرا ادبا اور خطباء کو اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا اور فرمایا کہ اپنے سب مدد گاروں، جنوں یا انسانوں اور اپنے دیوتاؤں اور معبودوں سب کی مدد لے کر اس قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔
سبع معلقات
ترمیمامرؤ القيس طرفہ بن العبد زہیر بن ابی سلمى لبید بن ربیعہ عامری عمرو بن کلثوم عنترہ بن شداد حارث بن حلزہ [1]