حارث بن حلزہ عرب جاہلیت کا شاعر۔ شعرائے سبع معلقات میں شمار ہوتا ہے۔ اس نے حیرہ کے بادشاہ عمرو بن ہند کے سامنے ایک قصیدے کے ذریعے اپنے قبیلے کی بڑی کامیاب وکالت کی تھی۔ اس کی طرف ایک دیوان بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ جو 1922ء میں طبع ہوا۔ 1820ء اور 1827ء میں اس دیوان کے لاطینی تراجم بھی شائع ہوئے۔ عہد جاہلیت کا ممتاز شاعر

حارث بن حلزہ
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 580ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

ابو ظلیم حارث بن حلزہ بکری کو بنو بکر میں وہی مقام حاصل ہے جو عمرو بن کلثوم کو بنو تغلب میں حاصل تھا۔ یہ بھی عمرہ بن کلثوم کی طرح اپنے اس معلقہ کی وجہ سے مشہور ہوا، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے بادشاہ عمرو بن ہند کی موجودگی میں یہ قصیدہ فی البدیہہ کہا تھا تاکہ وہ اس وجہ سے بادشاہ کا رجحان اپنی طرف کرلے اور اپنی قوم پر لگائے گئے الزمات کا دفاع کرے۔ یہ قصیدہ کہنے کا سبب یہ ہے کہ بنو بکر و بنو تغلب نے عمرہ بن ہند کے سامنے ہتھیار ڈال کر یہ طے کیا کہ وہ دونوں قبیلوں سے ضمانتیں لے کر ظالم سے مظلوم کا حق دلائے گا۔ عمرو بن ہند کے دربار میں دونوں قبیلوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کیں۔ بنو تغلب نے بنو بکر پر غداری کا الزام لگایا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کے دونوں فریق عمرو بن ہند کے سامنے جھگڑنے گے اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ بادشاہ کا میلان بنو تغلب کی طرف تھا۔ اس جانبداری نے حارث بن حلزہ کے جذبات کو ابھارا جو دربار میں موجود تھا۔ وہ یکدم کھڑا ہو گیا اور اس نے فی البدیہہ اپنا قصیدہ شروع کر دیا۔ اس وقت وہ اپنی کمان پر ٹیک لگائے کھڑا تھا کہتے ہیں وہ اس قدر مغلوب الغضب ہو گیا کہ اس کا ہاتھ کٹ گیا اور اسے محسوس بھی نہیں ہوا۔ اس نے احسن انداز میں بادشاہ کی مدح سرائی کی کہ وہ اس کی سوچ پر غالب آگیا اور اسے ہم خیال بنا لیا۔ اس کے دل میں بنو بکر کے سردار نعمان بن ہرم کی جلد بازی کی وجہ سے جو کینہ بھرا ہوا تھا اسے بھی ختم کر دیا۔ حارث نے ایک طویل عمر پائی اور اس کی وفات 50 ہجری قبل ہوئی۔ اصمعی کا خیال ہے اس قصیدہ کو سناتے وقت اس کی عمر ایک سو پیتنس (135) سال تھی ۔

شاعری

ترمیم

اس کا جو کلام ہم تک پہنچا ہے وہ ایک قصیدہ اور چند قطعات ہیں،جن سے اس کی شہرت کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی اس کے طبقہ کا تعین ہو سکتا ہے۔ اس کی مثال بھی طرفہ اور عمرو کلثوم جیسی ہے۔ اس لمبا قصیدہ حسن ترتیب، روانی اور انفرادیت کی بنا پر بہت مقبول ہوا۔ خصوصاً ایک ہی جگہ پر اس قدر طویل قصیدہ فی البدیہہ کہنے کی وجہ زیادہ پسند کیا گیا، ابو عمرو شیبانی کا کہنا ہے کہ اگر اس قصیدہ کی تیاری میں ایک سال کا عرصہ لگا دیتا تو اس کو ملامت نہیں کی جا سکتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کوڑھ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے حارث نے یہ قصیدہ پردے کے پیچھے سنایا تھا۔ بادشاہ نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور حارث کو داد دیتے ہوئے حکم دیا کہ اس درمیان سے پردہ ہٹا دیا جائے۔ اس قصیدے کی ابتدا تغزل سے کی ہے پھر اپنی اونٹنی کی تعریف کی ہے پھر بنو تغلب کو ان کی لڑائیوں کا طعنہ دیا ہے جن پر بنو بکر غالب رہا اور ان میں عرب کے قابل ذکر واقعات بھی بیان کیے ہیں پھر عمرو بن ہند کی مدح کی اور آخر میں اپنے قبیلے کی بڑائی اور اس کے عظیم کارناموں کو فخریہ انداز میں بیان کیا ہے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. عنوان : بوَّابة الشُعراء — PoetsGate poet ID: https://poetsgate.com/poet.php?pt=58 — اخذ شدہ بتاریخ: 5 اپریل 2022
  2. احمد حسن زیات۔ تاریخ ادب عربی۔ ترجمہ، محمد نعیم صدیقی۔ شیخ محمد بشیر اینڈ سنز سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور