مفقود خواتین (انگریزی: Missing women) کا ہندسہ یہ بتاتا ہے کہ خواتین کی مجموعی تعداد میں متوقع خواتین کے اعداد کتنے کم ہیں۔ یہ عمومًا مرد و خواتین کے جنسی تناسب کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ اس کی وجوہ میں جنس پر مبنی اسقاط حمل، مادہ بچہ کشی اور لڑکیوں کے لیے صحت کی دیکھ ریکھ اور غذائیت کی کمی ہے۔ یہ دعوٰی کیا گیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجیاں جو جنسی انتخاب کو ہوا دے رہی ہیں، وہ 1970ء کے دہے مفقود مادہ بچوں کے لیے ذمے دار ہیں۔ [1]

مفقود خواتین کے لیے عام طور سے دو وجہ بتائی جاتی ہیں: یا تو ان کا رحم مادر ہی میں قتل ہوتا یا پھر نومولود بچیوں ہی کو مار دیا جاتا ہے۔ بھارت میں سن 2011ء میں کرائی گئی مردم شماری کے مطابق اتراکھنڈ میں لڑکیوں کی پیدائش کے عمل میں واضح کمی نوٹ کی گئی ہے۔ ایک حکومتی سروے کے مطابق اس ریاست کے 132 گاؤں میں گذشتہ تین مہینے کے دوران 214 بچے پیدا ہوئے، جن میں سے ایک بھی لڑکی نہیں تھی۔ اتراکھنڈ میں ریاستی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن وجے بارتھوال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر معلومات موصول ہوئی تھیں کہ ان دیہات میں کچھ لڑکیاں بھی پیدا ہوئی تھیں لیکن ان اعدادوشمار کی پڑتال کی ضرورت ہے۔ تاہم کچھ ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی پیدائش نہ ہونے کی وجہ دراصل ان کی جنس کا علم ہونے کے بعد رحم مادر میں ان کا قتل ہے۔[2] اس طرح کے مسائل راجستھان، ہریانہ، دہلی میں دیکھے گئے۔ مفقود خواتین کا مسئلہ چین اور دوسرے ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے۔

نفسیاتی پہلو

ترمیم

بھارت سمیت کئی ملکوں میں لڑکیوں کے جنین کو ضائع کرنے میں کئی سماجی اور اقتصادی محرکات کار فرما ہیں۔ سماج میں لڑکیوں کو اب بھی کمتر اور بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ سماجیات کے ماہرین کے مطابق اقتصادی ترقی کی راہ پر اس چلن پر کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے ورنہ سماج کے لیے یہ روش خطرناک ثابت ہوگی۔[3]


مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. A Sen (2003)۔ "Missing women--revisited: reduction in female mortality has been counterbalanced by sex selective abortions"۔ British Medical Journal۔ 327 (7427): 1297–1299۔ PMC 286281 ۔ PMID 14656808۔ doi:10.1136/bmj.327.7427.1297 
  2. اقتصادی بوجھ، رحم مادر میں ہی بچیوں کا قتل
  3. لڑکیوں کی کمی اور سماجی مسائل