مادہ بچہ کشی
مادہ بچہ کشی نوزائیدہ مادہ بچوں کے دانستہ قتل کا نام ہے۔ ایسا ممالک جن میں مادہ بچہ کشی کی اپنی نمایاں تاریخ ہے، وہاں جنسی انتخاب پر مبنی اسقاط حمل کو بھی ایک متصلہ موضوع ہونے کی وجہ سے موضوع نحث بنایا جاتا ہے۔ مادہ نو زائیدہ کشی کئی ملکوں میں ایک موضوع سخن بن چکا ہے۔ ان میں چین، بھارت اور پاکستان شامل ہیں۔ یہ دعوٰی کیا گیا ہے کہ ان سماجوں میں عورتوں کو دیا گیا حقیر درجہ ماداؤں کو سماج میں قبول کرنے میں مانع ہے۔[1]
بھارت میں مادہ بچہ کشی
ترمیمبھارت کے سماج میں عورتوں کی صورت حال سدھارنے اور جنسی تناسب میں توازن قائم کرنے کے مد نظر لوک سبھا میں ایک تاریخی تجویز تعارف کی گئی تھی۔ اس میں مادہ بچہ کشی کو غیر ضمانتی جرم بنانے کی وکالت کی گئی ہے۔ 2014ء میں حکم ران کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری کی جانب سے پیش کردہ اس تجویز کو جسے ‘‘کنیا ششو ہتیا نوارن ودھییک 2014ء ’’ یا مادہ بچہ کشی قانون 2014ء کے اغراض اور مقاصد میں کہا گیا ہے کہ لڑکی کا جنم اب بھی غریب خاندانوں کی جانب سے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں یہ تجویز قانونی طور پر مروجہ مادہ بچہ کشی کے معاملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ قانون میں کہا گیا ہے کہ یہ صحیح وقت ہے جب اس بز دلانہ فعل کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔ لیکن کسی سخت قانون کی کمی میں اس قبیح رسم پر روک لگا پانا بہت شکل ہے۔
اسی وجہ سے یہ تجویز دی گئی ہے کہ ایک ایسا قانون لایا جائے جس میں ان اشخاص کے لیے سخت سزا کی گنجائش ہو جو مادہ بچہ کشی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ قانون کی گنجائشوں میں کہا گیا ہے کہ اگر لڑکی کی موت کی ابتدائی تحقیق کے بعد کوئی شخص مادہ بچہ کشی کا خاطی پایا جاتا ہے تو اسے فی الفور حراست میں لیا جانا چاہیے۔
اس جرم کو غیر ضمانتی جرم بنائے جانے کے ساتھ ہی خاطیوں کے لیے دس سال کی قید اور ایک لاکھ روپیے کے جرما نے کی سزا کا امکان رکھا کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ ایسے معاملوں میں مادہ بچہ کشی کی جانچ اور عدالت میں رپورٹ فائل کرنے کا کام لڑکی کی موت کی تاریخ سے تین مہینے کی میعاد کے اندر پورا کر لیا جانا چاہیے۔[2]
چین میں مادہ بچہ کشی
ترمیمچین میں مادہ بچہ کشی کا مسئلہ ایک سنگین نوعیت کا ہے۔ 1980ء کے دہے میں ہر 100 لرکیوں کے مقابلے 108 لڑکے تھے۔ 2000ء کی آمد کے ساتھ اس سے متصل دہے میں یہ تناسب مزید بگڑ گیا۔ یہ تناسب ہر 124 لڑکوں کے لیے 100 لڑکیاں ہو گیا تھا۔ 2010ء کی کچھ اطلاعات کے مطابق چین کے کچھ صوبوں میں یہ تناسب اس قدر بگڑ گیا ہے کہ ہر 130 لڑکے مقابلے صرف 100 لڑکیاں رہ گیا تھا۔
1979ء میں شروع سرکاری پالیسی میں آبادی پر گرفت کے کئی اقدامات نافذ کیے گئے۔ ان میں ایک سے زائد نچے کی صورت میں جرمانوں کی ادائیگی، جبری تولیدی صلاحیتوں کا انسداد اور اسقاط حمل شامل تھے۔ اس کے نتیجے میں کئی خاندان جو لڑکوں کو ترجیح دے رہے تھے، اپنی ہی بیٹیوں کے قاتل بن گئے۔ تاہم چین نے کئی مثبت قوانین کو بھی متعارف کروایا جیسے کہ جنین کے جنس کی تشخیص کر نے والی تکنیک کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔
1997ء میں ایک امریکی رضاکار نے اپنے دہشت ناک تجربے کو بیان کیا تھا کہ کس طرح اس نے گوانگژو (Guangzhou) کے ایک یتیم خانے کے رو بہ رو اس نے کئی بچیوں کی مردہ لاشوں کو لاوارث حالت میں دیکھی تھی۔ ان میں کچھ کو گشتی کچرادانوں میں لے جایا جا رہا تھا اور کچھ کو تو بڑے عوامی کوڑے جمع کرنے کے مقامات پر پھینکا گیا جنہیں بعد میں بلدیہ کے کچرا صاف کرنے والوں نے ہٹا دیا۔[3]