مقبرہ انارکلی
مقبرہ انارکلی لاہور، پنجاب، پاکستان میں واقع مغل دور کی ایک ہشت پہلو یادگار ہے۔
مقبرہ انارکلی مقبرہ انارکلی | |
---|---|
مقام | لاہور، پاکستان |
قسم | مقبرہ |
تعمیری مواد | اینٹ |
تاریخِ تکمیل | 1599 , یا 1615 عیسوی |
وقف شدہ | صاحب جمال بیگم یا انارکلی |
متناسقہ | 31°34′43″N 74°21′50″E / 31.57861°N 74.36389°E |
انارکلی کا مقبرہ (اردو: مقبره انارکلی) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے صدر مقام لاہور میں 16 ویں صدی کی ایک مغل یادگار ہے۔
انارکلی کا مقبرہ پرانے لاہور کے جنوب مغرب میں ، مال روڈ کے قریب ، لاہور کے پنجاب سول سیکرٹریٹ کمپلیکس کے میدان میں واقع ہے۔ اس کو مغلیہ دور کے ابتدائی مقابر میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جو تاحال موجود ہے اور مغلیہ دور کے ابتدائی دور کی اہم ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔مقبرے کی عمارت کو اس وقت پنجاب آرکائیوز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور عوام تک اس کی رسائی محدود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ مقبرہ مغل شہنشاہ جہانگیر نے انارکلی کی محبت میں تعمیر کیا تھا۔ انارکلی کی داستان کے مطابق، مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے اپنے ولی عہد شہزادہ سلیم (مستقبل کے شہنشاہ جہانگیر) سے محبت کرنے پرانارکلی کو گرفتار کر لیا تھا۔ انارکلی شہنشاہ اکبر کی ایک لونڈی تھی اور مبینہ طور پر اس کی شہزادہ سلیم سے محبت پر شہنشاہ اکبر اس قدر مشتعل ہو گئے کہ انارکلی کو ایک دیوار میں زندہ چنوا دیا۔ جب شہزادہ سلیم تخت افروز ہو گیا اور "جہانگیر" کا لقب اختیار کیا توکہا جاتا ہے کہ اس نے دیوار کی جگہ جہاں انارکلی کو دفن کیا گیا تھا، ایک شاندارمقبرہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
مغل فنون لطیفہ کے ماہر تاریخ دان عبد اللہ چغتائی نے لکھا ہے کہ یہ مقبرہ انارکلی کی آخری آرام گاہ کے طور پر نہیں بلکہ شہزادہ سلیم کی محبوب اہلیہ صاحب جمال بیگم(متوفی 1599) کے لیے تعمیر کیا گیا۔ اکثر تاریخ دان عبد اللہ چغتائی کی تحقیق کو ہی درست گردانتے ہیں۔ یہ عمارت ان دنوں پنجاب آرکائیوز کے زیراستعمال ہے ، لہذا عوام کی اس تک رسائی محدود ہے۔
سکھ سلطنت کے زمانے میں یہ مقبرہ اور اس کے گرد کے باغات مہاراجارنجیت سنگھ کے بڑے بیٹے، شہزادہ کھڑک سنگھ، کے زیر استعمال آ گئے۔ ازاں بعد یہاں خالصہ افواج کے فرانسیسی جنرل جین بپٹسٹ وینٹورا ، جو رنجیت سنگھ کی فوج خاص کے کماندار تھے، کی ایک بیوی رہائش پزیر رہی۔
لاہور پر برطانوی قبضے کے بعد 1851 میں اس عمارت کو انگلیکن سینٹ جیمز چرچ کے حوالے کر دیا گیااور اسے لاہور کا "پروٹسٹنٹ کیھتیڈرل" سمجھا جاتارہا۔ 1868 میں پنجاب نظامت تعلیم کے دفاتر بھی یہاں منتقل کر دیے گئے تھے۔1891 میں ، چرچ کو ایک نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا اور اس مقبرے کو پنجاب ریکارڈز آفس میں تبدیل کر دیا گیا۔
مقبرے کا تعویز:
مقبرے کا تعویز اس وقت ہٹا دیا گیاتھا جب اس کو گرجا گھر میں تبدیل کیا گیا تھا۔ جب عمارت میں سے کلیسا کو منتقل کر دیا گیا تو مقبرے کے تعویز کو اصل مقام پر بحال نہیں کیا گیا بلکہ کلیسا کی قربان گاہ کے مقام پر رکھ دیا گیا ۔
مقبرے کا طرزتعمیر:
مقبرہ ہشت پہلو شکل میں تعمیر کیا گیاہے ، جس کے پہلو 44 فٹ اور 30 فٹ کی متبادل پیمائش میں بنے ہیں۔ ہر کونے پر نیم ہشت پہلو مینارکھڑے ہیں۔ اس عمارت کی بلندی پر ایک دوہرا گنبد بنایا گیا ہے جو مغل عہد کے ابتدائی گنبدوں میں سے ایک ہے۔ گنبد 8 محرابوں پر قائم ہے ، ہر ایک کی اونچائی 12 فٹ 3 انچ ہے۔ عمارت کے اطراف میں بڑی بڑی محرابیں مغل بارہ دری کے انداز میں کھلی رکھی گئی تھیں ، لیکن انگریزوں نے کلیسا میں تبدیل کرتے وقت محرابوں کو بند کروا دیا تھا۔سفید سنگ مرمر کے تعویز پرباری تعالی کے 99 مقدس ناموں کی نقش نگاری کی گئی تھی جسے 19 ویں صدی کے ایک برطانوی مستشرق نے "دنیا میں نقش نگاری کے بہترین نمونوں میں سے ایک" کے طور پر بیان کیا ہے۔
حضرت شیخ سعدی کا ایک فارسی قطعہ بھی مزار پر کندہ ہے:
آه گر من بازبینم روی یار خویش را
تا قیامت شکر گویم کردگار خویش را
"آہ!اگر میں ایک بار پھر اپنے محبوب کا چہرہ دیکھ پاتا
تو، تا قیامت اپنے خدا کا شکر بجا لاتا
یہ شاندار مغل مقبرہ چہار طرف باغات سے گھرا ہوا تھا۔ آج اس کی عمارت سفیدی میں دبی ہو ئی اور چاروں طرف سے لاہور کی گنجان آبادی میں گھری ہوئی ہے۔
" تحفظ
یہ مقبرہ پنجاب کے محکمہ آثار قدیمہ کے محفوظ ثقافتی ورثہ یادگاروں کی فہرست میں شامل ہے۔