ملکہ زمانیہ بیگم

نواب اودھ نصیر الدین حیدر شاہ کی زوجہ اور اودھ کی ملکہ

ملکہ زمانیہ بیگم (وفات: 22 دسمبر 1843ء) ریاست اودھ کی ملکہ اور نواب اودھ نصیر الدین حیدر شاہ کی زوجہ تھی۔ نصیر الدین حیدر شاہ نے بطور نواب اودھ 1827ء سے 1837ء تک حکمرانی کی۔ نواب اودھ کی متعدد بیگمات تھیں مگر اُسے دو کے ساتھ زیادہ اُنس و محبت تھا جن میں قدسیہ بیگم اور ملکہ زمانیہ بیگم سرفہرست رہیں۔ چنانچہ اِن دونوں خواتین نے تاریخ لکھنؤ میں نمایاں حصہ لیا۔ اُن دِنوں کی لکھنؤ کی سیاست اِن دونوں خواتین کے اِشاروں پر چلتی تھی۔ متاخر تاریخ ریاست اودھ میں اِن دونوں خواتین کا نام جاوداں رہے گا۔ ملکہ زمانیہ بیگم کا عروج ابتدائے زمانہ سلطنت نصیر الدین حیدر شاہ میں زیادہ عروج پر تھا۔ جنرل سولومن، ریزیڈینٹ لکھنؤ اپنی کتاب میں ملکہ زمانیہ بیگم کو اصلی فرمانروائے ریاست اودھ قرار دیتا ہے۔

ملکہ زمانیہ بیگم
معلومات شخصیت
وفات 22 دسمبر 1843ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ریاست اودھ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات نصیر الدین حیدر شاہ (–7 جولا‎ئی 1837)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

ابتدائی حالات

ترمیم

ملکہ زمانیہ بیگم کے متعلق یا اُس کے خاندان کے متعلق شواہد و معلومات موجود نہیں ہیں اور اِس حوالے سے ابتدائی معلومات ہمیں جنرل سولومن، ریزیڈینٹ لکھنؤ کی کتاب سے ملتے ہیں جن میں اُس نے ملکہ زمانیہ بیگم کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے کہ: ’’یہ بیگم اصل میں ایک کُرمی کی لڑکی تھی۔ ایک شخص فتح مراد نے اِس کو اپنے قرضہ کے عوض اِس کے باپ سے لے لیا تھا۔ فتح مراد کی بہن کرامت النساء نے اِس لڑکی کو اپنی بیٹی بنا لیا اور پرورش کی۔ جب دُولاری (جو ملکہ زمانیہ بیگم کا پہلا نام تھا) سن شباب کو پہنچی تو اُس کی رستم خاں نامی ایک شخص سے شادی کردی گئی۔ دونوں نے رستم نگر، ریاست اودھ میں بودوباش اختیار کی۔ رستم خاں ایک فوجی افسر نواب مجیب خاں کے پاس ملازم تھا۔ دولاری کا ایک بیٹا محمد علی اور زینت النساء نامی بیٹی بھی پیدا ہوئی۔کچھ عرصہ بعد رستم خاں فوت ہوا تو نصیر الدین حیدر شاہ کے فرزند کے لیے ایک دایہ کی تلاش میں دولاری کو منتخب کیا گیا۔دولاری کو ملازمت پر رکھ لیا گیا۔ [1]

ملازمتِ شاہی سے ملکہ تک کا سفر

ترمیم

کچھ عرصے بعد نواب نصیر الدین حیدر شاہ نے اُس کو اپنے عقد میں داخل کر لیا۔دولاری کو ملکہ زمانیہ بیگم کا خطاب تفویض ہوا۔ اِس کے بعد لکھنؤ کی قسمت و سیاست اِس بیگم کے ہاتھوں میں آ گئی۔ہڑھ پروا کا علاقہ اُسے جاگیر میں دیا گیا جس کی تحصیل کل چھ لاکھ روپئے تھا۔ اِس کے علاوہ بادشاہ لکھنؤ کے انعام و عطاء کی کوئی اِنتہاء نہ تھی۔ بیگم کا بیٹا محمد علی کیوان جاہ کے خطاب سے سرفراز ہوا۔نواب نصیر الدین حیدر شاہ نے اِس لڑکے کو ولی عہد بنانے کی حتیٰ الامکان کوشش کی مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ قبول نہ کیا اور محمد علی کیوان جاہ کو ولی عہد مقرر نہ کیا گیا۔ ملکہ زمانیہ بیگم کی بیٹی زینت النساء کی شادی نواب ممتاز الدولہ سے کی گئی جس میں تیس لاکھ روپئے کا خرچ آیا تھا۔[2]

وفات

ترمیم

ملکہ زمانیہ بیگم نے 22 دسمبر 1843ء کو لکھنؤ میں وفات پائی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. اسلم جیرا جپوری: خواتین، صفحہ 183، مطبع علی گڑھ، 1914ء
  2. اسلم جیرا جپوری: خواتین، صفحہ 183/184، مطبع علی گڑھ، 1914ء

مزید دیکھیے

ترمیم