بھارت کے زیر اقتدار کشمیر کی ایک متنازع شخصیت۔ اصل نام غلام محمد ان کا تعلق وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام سے ہے۔ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف فوج کا اعانت کار بننے سے پہلے وہ محکمہ جنگلات میں یومیہ اُجرت پر کام کرتے تھے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ میر جنگل سمگلنگ کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے اس سے فوج کی حمایت چاہیے تھی۔ لہٰذا اس نے مخبری کا راستہ اختیار کر لیا۔[حوالہ درکار] تاہم خود میر الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔

غلام محمد میر جب ممہ کنہ بنے تو ماگام سے لے کر بارہمولہ تک لوگ اس کا نام سنتے ہی کانپ اُٹھتے تھے۔ مقامی لوگوں کے مطابق وہ فوجی افسروں کے ساتھ ملکر لوگوں کو گرفتار کرواتا اور والدین سے تاوان حاصل کرتا تھا اور بعد میں تاوان کی رقم فورسز اور میر کے درمیان تقسیم ہوتی تھی۔ لیکن ممہ کنہ کا موقف یہ تھا میرا کام صرف دہشت گردوں کو سپردگی کروانا تھا اور چھاپوں کے دوران افواج کو راستہ دکھانا تھا۔ آپریشن میں کوئی مر بھی جاتا تھا۔ لیکن میرا اس میں ہاتھ نہیں رہا آج ممہ کنہ کے گھر کے باہر نیم فوجی عملہ کی بھاری تعداد تعینات ہے اور وہ کڑے سیکورٹی حصار میں ہی سفر کرتا ہے۔ قتل، سمگلنگ اور جنسی زیادتی جیسے سنگین الزامات ان پر لگائے جاتے ہیں۔ ممہ کنہ کو کشمیری سماج میں ایک ویلین کی حیثیت حاصل ہے[حوالہ درکار]۔ فروری 2010 میں ان کا نام ایک بار پر خبروں کی سرخیوں میں آیا جب بھارت کے قومی اعزاز پدم شری سے انھیں نوازا گیا۔ کیونکہ ایسے اعزازات قومی بہادروں کو دیے جاتے ہیں اور متنازع شخصیات کو اس سے دور ہی رکھا جاتا ہے۔

بیرونی روابط ترمیم