منگولیا میں خواتین
منگولیا میں خواتین (انگریزی: Women in Mongolia) کا موقف کئی ایشیائی ممالک سے بہتر ہے۔ وہ کئی معاملوں میں مردوں کے مساوی حقوق رکھتی ہیں۔ تاہم یہ خواتین عمومًا چو پایوں کے چَرانے کی اہل نہیں سمجھی جاتی ہیں۔ یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ وہ گھڑ سواری کی بھی اہل نہیں سمجھی جاتی ہیں۔ یہ معاملات اس لیے بھی اہم ہیں، کیوں کہ منگولیا عمومًا خانہ بہ دوشوں کا ملک ہے اور یہاں پر چو پایوں کو گھمانے کے لیے لے جانا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ گھڑ سواری کا استعمال کافی اہمیت رکھتا ہے۔
جدید منگولیا میں کچھ دہوں سے یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ آسودہ حال خاندان کے لوگ اپنی لڑکیوں میں ملک کے دار الحکومت اولان باتور کے اسکولوں اور کالجوں میں بھیج رہے ہیں۔ کچھ ماں بات کا خیال ہے کہ یہ لڑکیاں ان کے بڑھاپے کا سہارا ہیں۔ یہ بھی رجحان ابھر رہا ہے کہ چوں کہ چوپایوں کی تعداد محدود ہے، اس لیے لڑکیوں پر لازم ہے کہ انھیں چَرانے کے علاوہ دیگر صلاحیتوں کو اپنائیں، جو روایتی طور پر مردوں کا خاصا اور انھی کا وتیرہ سمجھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے منگولیا میں دنیا کے "بر عکس جنسی خلا" پیدا ہو رہی ہے۔ جدید طور پر خواتین مردوں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو رہی ہیں۔ ان میں بے روز گاری کے امکانات کم ہو رہے ہیں۔ حین حیات کے معاملے میں بھی خواتین زیادہ پیش رفت کر چکی ہیں۔ ملک کی عورتیں اوسطًا مردوں سے دس سال زیادہ جیتی ہیں۔ مگر اس کا خمیازہ بھی ملک کی عورتیں بھگت رہی ہیں۔ منگولیا کی شہری تعلیم یافتہ خواتین، بالخصوص جن کا تعلق اولان باتور سے ہے، جدید طور پر شادی کی شرح میں زبر دست گراوٹ محسوس کر رہے ہیں۔ یہاں 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہر ہزار لوگوں کی آبادی میں شادی کی شرح 8.9 ہے۔ یہ تصویر 2007ء کی شرح سے غیر معمولی تنزل پیش کرتی ہے جب تعداد 22.9 فی ہزار تھی۔ یہ اعداد و شمار ملک کی شماریات کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ہیں۔[1]