منیزہ ہاشمی کی پیدائش 1946 کو ہوئی۔وہ ایک براڈ کاسٹر ، ٹیلی ویژن پروڈیوسر اور پاکستان ٹیلی وژن کے سابق جنرل منیجر ہیں۔ منیزہ ہاشمی کو عوامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے کا چار دہائیوں سے زیادہ کا تجربہ حاصل ہے۔ وہ ممتاز پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔

منیزہ ہاشمی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1946ء (عمر 77–78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نئی دہلی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد فیض احمد فیض  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ایلس فیض  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ٹی وی پروڈیوسر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ذاتی زندگی ترمیم

منیزہ ہاشمی 1946 میں فیض احمد فیض اور ایلس فیض کے ہاں پیدا ہوئیں [1]۔ ان کی ایک بڑی بہن ، سلیمہ ہاشمی ہے ، جو ایک قابل مصور ، معلم اور سماجی کارکن ہے۔ [2] منیزہ ہاشمی نے حمیر ہاشمی سے شادی کی اور ان کے دو بچے ہیں۔ پہلا بیٹا عدیل ہاشمی اداکار ہیں اور دوسرا بیٹا علی مدیح ہاشمی ہے جو ماہر نفسیات اور مصنف بھی ہے۔[3] [4] ۔منیزہ ہاشمی نے امریکا کی ریاست ہوائی کی یونیورسٹی سے تعلیم کے مضمون میں ماسٹر ڈگری حاصل کی [1] ۔منیزہ ہاشمی نے 1967 میں بطور اسسٹنٹ پروڈیوسر پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) میں کام شروع کیا۔ 1998 میں ، انھوں نے پی ٹی وی کے لاہور اسٹیشن میں جنرل منیجر کا عہدہ سنبھالا۔ سرکاری نشریاتی ادارے سے ریٹائرمنٹ کے وقت وہ پی ٹی وی میں ڈائریکٹر پروگرام تھیں۔[5] منیزہ ہاشمی دو بار دولت مشترکہ براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن کے بورڈ کی صدر منتخب ہوئیں۔[6] بعد میں ، جب وہ سی بی اے نے خود کو پبلک میڈیا الائنس کے نام سے متعارف کروایا تو وہ بورڈ کی صدر کی حیثیت سے لوٹ آئیں۔[7] منیزہ ہاشمی فیض میلے کی مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

ایوارڈز ترمیم

منیزہ ہاشمی کو 2003 میں فن میں اعلی کارکردگی کے لیے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔ [8] انھیں "تعلیمی میڈیا میں نمایاں کامیابیوں" کے لیے جاپانی نشریاتی ادارہ این ایچ کے کے صدر برائے NHK انعام سے نوازا گیا۔[9]

کتابیات ترمیم

منیزہ ہاشمی کا مشہور پاکستانی خواتین کے انٹرویوز کا مجموعہ ، کون کون میں؟ کو پائیدار ترقیاتی پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے 2014 میں شائع کیا تھا۔ [10]



حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب A. Reporter (2014-04-05)۔ "Muneeza documents women's struggles"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  2. Herald Exclusive (2011-02-02)۔ "Herald Exclusive: Ayesha Jatoi interviews Salima Hashmi"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  3. From InpaperMagazine (2011-10-22)۔ "Flashback: Breaking the glass ceiling"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  4. Asif Noorani (2016-05-01)۔ "Being Faiz"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  5. "Japanese Prize: Moneeza Hashmi honoured"۔ The Express Tribune۔ 2015-09-30 
  6. "President felicitates Ms Muneeza Hashmi. - Free Online Library"۔ www.thefreelibrary.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  7. "CBA members vote to become the Public Media Alliance"۔ Public Media Alliance (بزبان انگریزی)۔ 2014-05-21۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  8. "President to confer civil awards today"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ 2003-03-23۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019 
  9. "Japan Prize 2015" (PDF)۔ NHK۔ 2015-09-03۔ 22 اکتوبر 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  10. "Muneeza Hashmi's book 'Who Am I?' launched"۔ sdpi.org۔ 12 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2019