مولانا
مولانا،عربی لفظ مولانا: ہمارے مولا؛ "ہمارا آقا/ مالک"مراد: عالم دین، مشرقی علم کے فاضل اور متشرع بزرگوں کا اعزازی خطاب نیز خطاب کرنے کا تعظیمی کلمہ [1] ایک عنوان ہے جو مذہبی اداروں کے مخصوص فاضلین، جنھوں نے ایک مدرسے یا دار العلوم جامعہ یا دیگر اسلامی علما کرام کے تحت تعلیم حاصل کی ہو، مثال کے طور پر عالم دین/علما، قابل احترام مسلمان مذہبی رہنماؤں کے نام سے پہلے، زیادہ تر وسطی ایشیا میں اور ہندوستانی برصغیر میں استعمال ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ" مولیٰ" فصیح عربی زبان کا لفظ ہے جس کا استعمال قرآن مجید، احادیث مبارکہ اورکلام عرب میں موجودہے، علما عربیت نے اس کے پچاس سے زائد معانی بیان کیے ہیں عام لغات میں بھی اس کے پندرہ سترہ معانی بآسانی دستیاب ہیں۔ اسی لفظ کے ساتھ "نا" ضمیر بطورمضاف الیہ استعمال کی جاتی ہے۔ جہاں تک اس کے سب سے پہلے استعمال کی بات ہے تو خود اللہ جل شانہ نے قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کرکے اپنے، جبریل امین اور نیک مسلمانوں کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایاہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "فان اللہ ھو مولاہ وجبریل وصالح المومنین"، یعنی بے شک اللہ تعالیٰ اورجبریل اور نیک اہل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں۔ یہاں ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بھی، فرشتے کے لیے بھی اور خواص اہل ایمان(یعنی نیکوکاروں)کے لیے بھی یہ لفظ استعمال فرمایاہے۔ جس سے معلوم ہواکہ جبریل امین اور تمام نیکو کار اہل ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں اور یہ لقب انھیں خود بارگاہ ایزدی سے عطاہواہے۔ اس سے آگے چلیں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو فرمایا: "یا زید انت مولانا"۔ معلوم ہوا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولیٰ ہیں۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایاکہ:"من کنت مولاہ فعلی مولاہ"
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "اردو_لغت"۔ 05 مارچ 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2015