مولانا حکیم عبدالرحمن آزاد
اہل حدیث عالم دین ، رہنما ختم نبوت
1912ء کو موضع پنی ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے ، دینی تعلیم بھی حاصل کی، طبیہ کالج دہلی سے فاضل طب والجراحت کی سند حاصل کی، تقسیم ہند کے بعد لاہور پھر گوجرانوالا میں آباد ہو گئے،
حکیم عبد الرحمان آزاد مجلس احرار اسلام مغربی پاکستان کے صدر رہے، 1974ء کو ضلع گوجرانوالہ کے لیے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا وہ پرانے جہاندیدہ اور تجربہ کار احراری تھے۔ انھیں 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں ڈکٹیٹر کے خطاب سے نوازا گیا تھا جو آخر وقت تک ان کے نام کے ساتھ تعارف کے طور پر وابستہ رہا۔
انھوں نے قادیانیوں کے ساتھ کئی کامیاب مناظرے بھی کیے، مجلس تحفظ ختم نبوت کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کو باہم مربوط رکھنے اور مشترکہ جدوجہد منظم کرنے میں ہمیشہ سرگرم رہتے۔
1984ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔ ملک گیر تحریک کے دباؤ پر صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ قادیانیوں کو اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے اور اسلامی اصطلاحات و شعائر کے استعمال سے روک دیا جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو اپنا ہیڈکوارٹر لندن میں منتقل کرنا پڑا اور پاکستان میں اپنی سرگرمیاں محدود کرنا پڑیں۔ اس تحریک میں مولانا حکیم عبد الرحمان آزادؒ کا کلیدی کردار تھا اور وہ اس کے سرگرم رہنماؤں میں سے تھے۔
مارچ 2004ء کو وفات پائی ،[1]