مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری جہازی
(جون1943ء- 19/ اپریل1972ءبروز بدھ)
ترمیمجہاز قطعہ گڈا جھارکھنڈ انڈیا کے اکابرین کی فہرست میں ایک نمایاں نام مولانا محمد اسلام ساجد مظاہری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ محمد اسلام نام تھا، ساجدؔ تخلص کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ مظاہر علوم سہارنپور سے سند فراغت حاصل کی تھی، اس لیے اس نسبت سے کبھی مظاہری اور کبھی مظہری لکھا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم کا نام جناب عبد الرحمٰن تھا، جو نصیرالدین عرف نسو کے فرزند تھے۔ نسو ابن پھیکو، ابن گھولی ابن دروگی تھے۔ اس سے آگے کا سلسلہ نسب نہ کسی کو معلوم ہے اور نہ محفوظ ہے۔ دستیاب نسب نامہ کی تحریر پر ہر نام کے ساتھ شیخ یا مرڑ کا لاحقہ لگا ہوا ہے، جس سے پوری برادری شیخ کہلاتی ہے۔ گرچہ اس حوالے سے کوئی مستند معلومات نہیں ہیں، تاہم قبائلی روایت کو تسلیم کرتے ہوئے مولانا بھی شیخ برادری میں آتے ہیں۔
مولانا مرحوم کی پیدائش اور تعلیمی معلومات کے حوالے سے ان کی ایک تحریر موجود ہے، جو انھوں نے ”حرف آخر“ نامی کتاب کے شروع میں تعارف کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس تحریر کو من و عن یہاں پیش کیا جارہا ہے:
نام: محمد اسلام ساجدؔ
پتہ: مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ، ڈاک خانہ اعظم پکڑیا، تھانہ پتھر گاماں، ضلع دمکا بہار
تاریخ پیدائش: ماہ جمادی الثانیہ1362ھ، (مطابق جون 1943ء) میں ولادت ہوئی، تاریخ متعین نہ کی جاسکی۔
تعلیم: غالبا 1366ء (مطابق1947ء) سے طفل مکتب بنا۔ 1379ء (مطابق 1959ء) تک مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں تعلیم شرح جامی، کنز الدقائق، اصول الشاشی تک حاصل کی۔ شوال 1379ھ (مطابق مارچ 1960ء) میں مظاہر علوم سہارنپور، بتکمیل تعلیم پہنچا۔ شعبان 1384ھ(مطابق دسمبر1964ء) فراغت (مدرسہ مذکور سے) پائی۔
پیشہ: آبائی پیشہ کاشتکاری ہے۔ والد ماجد کے ذمہ ایک ایکڑ چند ڈسمل زمین کاشت ہے۔ فراغت کے بعد مدرسہ رحمانیہ جہاز قطعہ میں بحیثیت مدرس چہارم کام کرنا شروع کیا۔
نوٹ: دنیا مجھے اسلام کے نام سے جانتی ہے۔ گھر، گاؤں، مدرسہ، حتیٰ کہ مظاہر علوم سہارنپور میں بھی ”محمد اسلام دمکوی ہی تھا۔ ساجدؔ۔
مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں تدریس
ترمیممدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں درجہ سوم تک کی کتابوں کی تدریس وابستہ کی گئی۔ نور الایضاح،قدوری،میزان و منشعب، نحومیر، گلستاں اور بوستاں کا درس بہت زیادہ مقبول تھا۔ تا دم وفات تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ میں ایک استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ناظم دارالاقامہ بھی تھے، جس کے ذریعے بچوں کی تربیت پر خاص نگاہ رکھتے تھے۔ مطبخ کی ذمہ داری بھی وابستہ تھی، جس سے تہذیبی و سماجی تربیت پر بھی خصوصی توجہ فرماتے تھے۔ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ وہ ایک باکمال خطیب بھی تھے اور جمعہ کے دن جامع مسجد میں خصوصیت کے ساتھ خطاب فرمایا کرتے تھے۔
وہ کم گو تھے، لیکن طبیعت میں ظرافت تھی۔ساتھ ہی وہ قابل تقلید اخلاق کے بھی مالک تھے۔نرم خوئی ان کی خاص صفت تھی، اس لیے مدرسے کے بچے آپ سے بہت زیادہ بے تکلف رہا کرتے تھے۔ تدریس سے فراغت کے بعد بالعموم تحریر و کتابت میں مصروف رہتے تھے۔اور کئی کتابیں ان کی علمی وراثت کی یادگار ہیں۔
تصنیفات
ترمیمگاؤں میں دو بڑے سیلاب کے حادثے، وارثین کی نااہلی اور کتابوں کے تعلق سے بے حسی کی وجہ سے مولانا مرحوم کی ذاتی لائبریری فنا کے حوالے ہو گئی، تاہم ان حوادث کے باوجود جو سرمایہ محفوظ رہا ہے، اس میں مولانا کے کتابوں کا کچھ مسودہ موجود ہے، جس کا تعارف پیش ہے۔
1۔ دل کی راہ سے
اس کتاب میں اخباری تراشے ہیں، تراشوں میں چھپے مضامین اور خبروں پر تبصرے کیے گئے ہیں، جس میں مولانا ؒ نے حالات حاضرہ پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے، اپنی قیمتی رائے پیش کی ہے۔ اپنے وقت کا سب سے مشہور اور معیاری اخبار الجمعیۃ کے مضامین بکثرت موجود ہیں۔ جا بجا منظر کشی کے لیے لائنوں کے خاکے بھی بنے ہوئے ہیں، جس میں اشارے اورطنز و مزاح پائے جاتے ہیں۔
2۔اشعار برجستہ
اس میں مولانا مرحوم نے اپنی یاد داشت کی بنیاد پر ایک سو تین مختلف عناوین پر بڑے بڑے شاعروں کے شعروں کاانتخاب پیش کیا ہے۔
3۔ فیض القدیر لمولانا امیرؒ
مظاہر علوم سہارنپور کے استاذ حدیث حضرت مولانا امیر احمد صاحب نور اللہ مرقدہ ترمذی کا درس دیا کرتے تھے۔ مولانا محمد اسلام صاحب نے درس کی تقریر قلم بند کی ہے۔ راقم کے پاس جو کاپی موجود ہے، اس میں کتاب السیر کے باب ما جاء فی الطیرۃ تک کی تقریر موجود ہے۔ اور مسودہ پر پانی نے اپنے اثرات چھوڑے ہیں، لیکن بہ مشکل اسے پڑھا جا سکتا ہے۔ اور اسے شائع بھی کیا جا سکتا ہے۔
اسلوب تحریر
ترمیممولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ بہت ہی سادہ اور سلیس نثر لکھتے تھے،جس میں انشا نگاری کا عکس جھلکتا تھا۔ اسلوب میں رنگینی فکر غالب تھی اور کسی بات کو دلچسپ پیرایہ میں بیان کرنے کے ہنر میں کمال رکھتے تھے۔ ان کے اسلوب کا اندازہ لگانے کے لیے اس اقتباس کو ملاحظہ فرمائیں:
جمعہ کی رات(شب اول) سہانی، خوشگوار پرفضا چاند کی کوثر تسنیم میں دہلی ہوئی چاندنی اور اس پرہولے ہولے جھکولے کھاتی ہوا، کتنا پرسکون ہوتا ہے اور پھر اس پر سونے پر سہاگہ کیوں نہ ہوجائے، جب کہ ایسی حالت میں دوست اور یار غار آجائے!۔
ا س پر فضا ماحول میں ہم بیٹھے ہوئے تھے، بعد نماز مغرب کے آدھ گھنٹے گفتگو میں گذر جانے کے بعد اچانک دروازے کی جانب سے السلام علیکم کی آواز آئی۔ سر اٹھا کر دیکھا، آواز جانی پہچانی تھی۔ خوشی دوبالا ہو گئی۔ رات گفتگو میں گذری۔
صبح کو بعد ناشتا جب مہمان اپنے میزبان کے ساتھ تنہا تھے، نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ بات پیش کی:
”مولوی اسلام! آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں، اکثر چاہا، مگر بھول جاتا ہوں۔ ابھی پھر خیال آیا، دیکھیے آج ہماری، آپ کی اور نہ جانے کتنے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ نہ وہ گھر کا گنا جاتا ہے اور نہ باہر کا۔ اور ان میں سے اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں، جو مدارس نظامیہ سے تعلیم حاصل کرکے آتے ہیں اور معمولی سی تنخواہ میں بچوں کو تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اول پیسے کی کمی۔ دوم وقت سے فراغت کم ہونے کی وجہ سے وہ گھر کے کسی اور کام کو انجام دے نہیں پاتا۔ اور گھر سے ایک قسم کی بے تعلقی ہوجاتی ہے۔ اور پھر گھر والے اس کو علاحدہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ”دھوبی کا کتا نہ گھر کا گھاٹ کا“ والی مثال ہوجاتی ہے۔ ایسے عالم میں وہ جاہل مزدور سے بھی گیا گذرا ہوجاتا ہے، جو روزانہ کم از کم دو سیر مزدوری کرلیتا ہے۔ لوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنستے ہیں اور تماشائی بنتے ہیں۔
آج ہمیں ضرورت ہے کہ ایک ایسی انجمن ہو، جس کی کچھ مالی حیثیت ہو اور وہ ایسے لوگوں نیز اور دوسرے غربا و مفلسوں کی وقتی امداد کرسکے اور جب فراغت ہوجائے، وہ شخص اس قرض حسنہ کو ادا کر دے۔ میں اس چیز کی اہمیت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ تم کیا کہتے ہو؟؟!“۔
اور محمد اسلام نے اپنے دوست کو اپنا دلی ترجمان دیکھ ہاں کہہ کر اپنا وہ منصوبہ پیش کر دیا جو ایک مدت سے اپنے دل میں پال رکھا تھا۔ اور۔۔۔ اسی وقت ان دونوں ”میزبان اور مہمان“ نے ایک انجمن کی داغ بیل ڈال دی! خدا کرے ان دو دوستوں کی دلی تمنا پوری ہو۔ اور دونوں کی کوشش بار آور ہو!!!!۔
ملی کارنامے
ترمیمتصنیف و تالیف اور خطابت کے علاوہ مولانا ملی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ اور سماجی مسائل کے حل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا کرتے تھے۔ علاقہ میں بے پناہ غربت کے پیش نظر ملی و سماجی کاموں کو سہارا دینے کے لیے مولانا نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور اسے ”تنظیم ملت“ کا نام دیا۔ اس میں لوگوں کو جوڑ کر ملت کے وہ تمام کام انجام دیتے تھے، جو وقت کی ضرورت ہوتی تھی، جو بالیقین مولانا مرحوم کی ملی خدمات پر شاہد عدل ہیں۔
مولانا کے شاگرد
ترمیممولانا مرحوم نور اللہ مرقدہ تقریبا آٹھ سال تک مدرسہ اسلامیہ رحمانیہ کے استاذ رہے۔ درجہ سوم تک تعلیم تھی، آپ سے سبھی درجات کی کتابیں متعلق تھیں، اس لیے آپ کے بہت سے شاگرد تھے، چند مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد یونس صاحب کیتھپورہ، محمد اسلام، فیض الرحمان، محمد عرفان، محمد فاروق رجون، حافظ ظفیر الدین، رحمت علی تلوائی، شوکت علی مرنئی، محمد اکرام الحق صاحبان۔
حادثہ فاجعہ
ترمیممولانا کا شب و روز درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گذر رہا تھا کہ اچانک مولانا مرحوم کو پہلے سردی والا بخار آیا، جو رفتہ رفتہ میعادی بخار میں تبدیل ہو گیا۔گاؤں کے ڈاکٹر جناب ثمیر الدین صاحب نے علاج شروع کیا، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا، جس کے پیش نظر جھپنیاں کے ڈاکٹراکرام صاحب سے رجوع کیا گیا، لیکن یہاں بھی کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ صلاح و مشورہ کے بعد یہ طے کیا گیا کہ حکیمی علاج شروع کیا جائے، چنانچہ گاؤں کے حکیم جناب محمد حسین مرحوم نے علاج شروع کیا، لیکن یہاں بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آیا، بالآخر علاقے کے سب سے مشہور ڈاکٹر جناب شہید پچوا قطعہ سے رابطہ کیا گیا۔ انھوں نے خصوصی توجہ کے ساتھ تقریبا بارہ تیرہ ایام تک علاج کیا اور اپنے گھر پر ہی اپنی نگرانی میں رکھا، لیکن مرضی مولیٰ برہمہ اولیٰ ہوتا ہے، اس لیے اس بیماری سے وہ جاں بر نہ ہو سکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ کر واصل بحق ہو گئے۔ ایک تحریر کے مطابق تاریخ وفات 19/ اپریل 1972ء بروز بدھ تقریبا دو بجے دن ہے۔ اس کے اگلے دن آبائی قبرستان جہاز قطعہ میں تدفین عمل میں آئی۔ پسماندگان میں ایک لڑکا جناب محمد اطہر اور ایک لڑکی مَسُودہ (مسعودہ) خاتون ہے، جو تا دم تحریر با حیات اور صاحب اولاد ہیں۔ ان کے انتقال کے وقت لڑکی ابھی کچھ ہی مہینوں کی تھی اور بڑی اولاد لڑکے کی عمر کچھ سال کی تھی۔