مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی


پیدائش

ترمیم

مولانا محمد علی صدیقی   ( 12 مارچ 1910تا  16 دسمبر 1992) المعروف مولانا محمد علی کاندھلوی یکم ربیع الاول 1327 ہجری  بمطابق 12 مارچ 1910عیسوی  بروز پیر ضلع مظفر نگر کے قصبہ کاندھلہ کے محلہ مولویاں میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام علی احمد رکھا جب کہ آپ کے والد گرمی پیار سے آپ کو  حیدر کہتے تھے۔ بعد  میں آپ محمد علی کے نام سے پکارے جانے لگے۔[1]

خاندان

ترمیم

مولانا چار بھائی  اور دو بہنیں تھیں۔ بھائیوں کے نام بالترتیب حکیم محمد عمر، حکیم محمد عثمان اور  مولانا بشیر احمد ہیں۔ مولانا کے والد کا نام مولانا حکیم صدیق احمدؒ تھا۔ آپ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے ارشد تلامذہ اور اجل خلفاء میں سے تھے یعنی علمِ ظاہر اور علمِ باطن دونوں میں حضرت گنگوہی سے فیض یاب تھے۔ آپ نسبا حضرت  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اولاد ہونے کی وجہ سے صدیقی تھے۔  مونالا کے والد زمینداری اور طبابت کے ساتھ ساتھ شیخ ِطریقت بھی تھے اور آپ کا  حلقۂ   ارادت کافی وسیع تھا۔جمعہ کے روز خصوصیت سے ارادت مندوں کا جھمگٹا رہتا تھا۔ مولانا کے والد حکیم صدیق احمدؒ نے طبابت کا پیشہ حضرت گنگوہی کی ہدایت کے مطابق اختیار کیا تھا۔ یہ علم نہیں  ہو سکا کہ آپ نے علمِ طبابت کس سے حاصل کیا، تاہم  آپ کے دادا (مولانا محمد علی صدیقیکے پڑدادا) حکیم رحیم اللہ ایک جید اور حاذق طبیب تھے اور دور دور تک آپ کی شہرت تھی۔ آپ اُن لوگوں میں  شامل تھے جو حضرت سید احمد بریلوی کے ساتھ جہادِ بالاکوٹ میں شریک تھے۔ انہی حکیم رحیم اللہ کے والد  حکیم عزیز اللہ اور دادا حکیم حفیظ اللہ بھی طبابت کرتے تھے۔ حضرت مولانا کے والد مولانا صدیق احمدؒ کو فقہ میں بھی خداداد ملکہ تھا۔ تمام ہمعصر ان کی فقاہت کا لوہا مانتے تھے۔ فقہ حنفی پر اُن کی نظر صرف مقلدانہ نہیں بلکہ محققانہ تھی۔ انھوں نے فقہ حنفی  کا بڑا علمی اور تحقیقی مطالعہ کیا تھا۔ دلائل کو عنوان بنا کر ایک مبسوط کتاب بھی لکھی تھی جو اکثر تو محفوظ نہ رہ سکی تاہم حضرت مولانا کی کاوش سے بچے کھچے کچھ اوراق جمع کیے گئے تو پوری کتاب الطہارۃ بن گئی جو دو سو (200) صفحات پر مشتمل تھی۔ فقہ پر دلائل کی فراہمی پر انھوں نے کس قدر محنت کی ہو گی اور کتنا عرصہ لگایا ہو گا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کہ صرف کتاب الطہارۃ کی ترتیب  میں انھوں نے کم و بیش ساٹھ 60 حدیث کی کتابوں  سے اور 30 فقہ کی کتابوں سے استفادہ کیا۔

مولانا محمد علی صدیقی کے والد ایک جامع شخصیت تھے۔ وہ مفسرقرآن تھے، محدث تھے، فقیہہ تھے، روحانی بیماریوں کے لیے مرشدِ کامل اور جسمانی بیماریوں کے لیے طبیب حاذق تھے۔ آپ 1921ء میں جب  کہ مولانا کی عمر صرف  گیارہ سال تھی اس دار فانی سے رخصت  ہو گئے۔[2]

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ مولانا کا شجرہ ٔ      نسب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔  یہاں اُن کے شجرہ نسب کا  بیان مقصود نہیں البتہ اُن کے خاندان کے ایک جلیل القدر بزرگ کا مختصر تذکرہ فائدے سے خالی نہیں ہو گا یعنی ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف عالم دین اور احتساب کے ادارے کے بانی قاضی ضیاء الدین سنائی  (641ھ-718ھ)، جو سلطان علا الدین خلجی (1296–1316 عیسوی )کے دور میں محتسب کے منصب پر فائز رہے۔  قاضی صاحب دیانت داری اور تقوی میں مقتدائے وقت تھے۔ حکومت کی جانب سے احتساب کا کام ان کے سپرد تھا۔ حضرت  سلطان الھند شیخ نظام الدین اولیاء  کی محفلِ سماع پر ہمیشہ اعتراض کرتے تھے۔ جب قاضی صاحب مرضِ وفات میں مبتلا ہوئے تو شیخ نظام الدین اولیاء  ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ قاضی صاحب کو جب اطلاع ہوئی تو اپنی دستار شیخ المشائخ کے لیے راستے میں بچھوا دی۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے دستار زمین سے اٹھا کر آنکھوں سے لگا لی۔ جب شیخ المشائخ  اُن کے سامنے پہنچے  تو  قاضی صاحب نے شرم کے مارے آنکھیں نہ ملائیں۔ حضرت نظام الدین اٹھ کر باہر تشریف لائے ہی تھے کہ قاضی صاحب کی وفات ہو گئی۔ شیخ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمانے لگے:   "ایک ہی ذاتِ شریعت کی حمایت کرنے والی تھی، افسوس کہ وہ بھی نہ رہی"۔

قاضی ضیاء الدین سنائی جب پہلی بار احتساب کی نظر سے حضرت بو علی شاہ قلندرؒ کے پاس  گئے تو انھوں نے دو تین بار تیز نگاہ سے اُن کی طرف دیکھا لیکن کوئی اثر نہ ہوا۔ جب مولانا سنامی  چلے گئے تو لوگوں نے قلندرؒ صاحب سے کہا کہ آج تو ضیاء الدین سنائی نے آپ پر بڑی سختی کی، فرمایا:

"دو تین بار میں نے چاہا کہ اس پر حملہ کر دوں لیکن اُس نے شریعت کی زرہ پہن رکھی تھی، میرے تیر نے اس پر اثر نہ کیا"۔

قاضی ضیاء الدین سنائی نے دہلی  میں ہفتہ وار درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تو اس میں معاشرے کے تمام طبقات کے لوگ شریک ہونے لگے اور بقول مؤلف تاریخِ فیروز شاہی، شرکاء کی تعداد تین ہزار تک ہو جایا کرتی تھی۔ قاضی  ضیا ء الدینؒ نے احتساب کے متعلق ایک معرکہ آرا کتاب "نظام الاحتساب" کے نام سے تحریر کی جس میں احتساب کے بنیادی خدوخال، اُصول، اہمیت اور نفاذ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ قاضی ضیاء الدین کے جاری کردہ فتاوی کو "الفتاوي الضيائية" کے نام سے جمع بھی کیا گیا جو شریعت، شرعی احکام کے استنباط اور اجتہادی طریقوں کا مرقع تھا۔[3]

بچپن

ترمیم

یہاں حضرت مولانا محمد علی صدیقی کے بچپن کے چند واقعات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اُس ماحول کے بارے میں علم ہو سکے جس میں  مولانا نے پرورش پائی۔

حضرت مولانا کے والد کے دو مرید بہت ہی مخلص تھے۔ ایک کاندہلہ  کے  ملا رمضانی اور دوسرے بڑوت کے حاجی مسیتا۔ملا رمضانی  عید کے روز اونٹ لاتے تھے، مولانا اور اُن کے بھائی اور محلہ کے دوسرے بچے اونٹ پر سوار ہو کر عید گاہ جاتے تھے، عید کے دن بہت بڑا میلہ لگتا تھا۔ نمازِ عید کے بعد واپس بھی اونٹ پر ہی سوار ہو کر آتے تھے۔

مولانا کی عمر 8   برس تھی کہ جون کے رمضان میں آپ نے پہلا روزہ رکھا، خوب آؤ بھگت کی گئی، نئے نئے کپڑے بنے، قسم قسم کے کھانے پکے، عصر کے بعد پیاس کا غلبہ ہوا تو آپ رونے  لگا، والد صاحب نے کہا کہ پانی پی لیں مگر والدہ کا اصرار تھا کہ روزہ پورا کیا جائے۔ والدہ نے مولانا کو بھائی کے ساتھ  باہر روانہ کر دیا اور ہدایت کردی کہ اذانِ مغرب کے وقت لانا۔ یوں روزہ پورا کروایا گیا۔

عمر کے اس حصے میں  مولانا، مولانا محمد ادریس  کاندھلوی کی بارات میں تھانہ بھون گئے۔ نمازِ عصر کے لیے خانقاہ امدادیہ گئے تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی پہلی بار  زیارت ہوئی۔

جب مولانا کی عمر 9 سال کی تھی تو کاندھلہ میں مولانا محمد علی جوہر کی والدہ اور ان کی اہلیہ آئیں، بہت بڑا استقبال ہوا، دودہیوں کے محلہ میں خلافت کانفرنس کا پنڈال بنا۔ داخلہ کا ٹکٹ تھا۔ مولانا محمد علی جوہر کی والدہ  کو بی اماں کہتے  تھے۔ یہ شعر زبان زد عام تھا:

بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو

مولانا اس زمانے میں سبز رنگ کا جھنڈا جس پر سنہرے حروف سے "نصر من اللہ و فتح قريب" لکھا ہوتا تھا، تھامے ہم عمر بچوں کی کمان کرتے، گلی در گلی اور محلہ در محلہ پھرا کرتے اور انگورہ فنڈ کے لیے پیسے چندہ جمع کرتے۔

1920ء میں، جب کہ مولانا کی عمر 10 سال تھی، آپ اپنے والد کے ساتھ حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کی زیارت کو گئے جو اسی سال رہا  ہو کر دیوبند پہنچے تھے۔ اس ملاقات میں حضرت شیخ الہند نے آپ کو ریوڑیاں دی تھیں۔ مولانا کے والد اور حضرت شیخ الہند دونوں ہی حضرت گنگوہی کے مرید اور خلفاء میں سے تھے۔

جب مولانا کی عمر گیارہ سال  کی تھی تو آپ کے  والد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ دو ر معاشی تنگی کا تھا۔ اُنہی دنوں کی بات ہے کہ گھر میں دو روز سے فاقہ تھا اور والدہ نے مولانا اور دیگر بہن بھائیوں کو گھر سے باہر جانے سے منع کر دیا تھا۔کسی ذریعہ سے حضرت کی نانی کو پتہ چل گیا، وہ پورا سامانِ خور و نوش لے کر گھر آ گئیں مگر  مولانا کی والدہ نے وہ سامان لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ: "اماں میں ہر گز نہ لوں گی، دنیا کہے گی کہ اولاد کو بھائیوں کی مدد سے پالا ہے، میں اپنی اولاد کی نگاہیں نیچی نہیں کرنا چاہتی،    اتفاق سے دو کُرتے سلائی کے آ گئے، والدہ نے ظہر کی نماز تک ہاتھ سے سی کر دیے اور یوں شام تک کھانے کا انتظام ہو گیا۔[4]

تعلیم و تربیت

ترمیم

مولانا نے حفظِ قرآن پاک اپنی والدہ سے شروع کیا اور تیسویں کی 16 سورتیں اُن سے  حفظ کیں۔ اس کے علاوہ قاعدہ بغدادی بھی اپنی والدہ سے ہی پڑھا۔ بعد میں حافظ رحیم بخش کے ہاں دس سال کی عمر میں مکمل قرآن ِ پاک حفظ کیا۔ مولانا نے 1921ء تا 1922ء بڑوت میں اپنے بڑے بھائی حکیم محمد عمر کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی۔ 1923ء میں آپ اپنے ماموں مولانا اشفاق الرحمنؒ کی تربیت میں رہے۔ 1924ء  سے 1927ء تک مولانا نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور  میں تعلیم حاصل کی۔ وہاں اُن کے اساتذہ میں مولانا مفتی جمیل الرحمن تھانوی، قاری محمد داؤد، مولانا مسعود احمد کے  نام زیادہ نمایاں ہیں۔

مولانا نے1928 اور1929 کے دوران میں دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی۔ رسمی تعلیم کا سلسلہ1929  تک جاری رہا، جب کہ مولانا کی عمر 19 سال تھی۔

اس کے علاوہ مولانا نے1937ء میں مولوی فاضل، 1938ء میں فاضل فارسی اور 1940ء میں  عربی فاضل کی اسناد حاصل کیں۔

زمانہ طالبِ علمی کے چند واقعات

ترمیم

یہاں مولانا کے زمانہ طالبِ علمی کے چند واقعات پیش کیے جاتے ہیں تا کہ ہم اُن کی دینی، ذہنی  اور فکری ساخت سے بہترانداز میں آشنا ہو سکیں:

جن دنوں مولانا بڑوت میں تھے اور آپ کی عمر اس وقت صرف 13 سال تھی، انہی دنوں کی بات  ہے کہ  ایک روز آپ نمازِ عشاء سے فارغ ہو کر حافظ جی مشین والے کے ہاں گئے، وہاں کچھ لوگ جمع تھے۔ موضوعِ گفتگو ایک حظیرہ تھا (حظیرہ سے مراد ایسا مقبرہ ہے جس کے اردگرد باغ ہو اور باغ کے چاروں طرف دیوار ہو)۔ وہاں بات یہ ہو رہی تھی کہ آج تک رات کو اس حظیرہ میں کوئی نہیں گیا۔ مولانا نے سن کر کہا کہ وہاں کیا ہے؟ بولے کہ وہ کسی کو آنے نہیں دیتے۔ مولانا نے کہا کہ بتاؤ اگر میں رات کو تاریکی میں وہاں جاؤں تو کیا دو گے؟ ایک جاٹ نے دس روپے کی ہامی بھر لی۔برسات کا موسم تھا، مولانا نے لالٹین لی اور وہاں جا پہنچے، بلکہ مقبرہ کے اوپر چڑھ کر لالٹین دکھا دی اور پھر واپس آ گئے اور پھر آ کر اُن لوگوں سے کہا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں یہ آپ کے اوہام کی تخلیق ہے، وہاں کچھ نہیں ہے، عقائد اوہام  نہیں حقائق کا نام ہے۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی دہلی تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں بڑوت پڑتا تھا۔ ہمارے مولانا اپنے بڑے بھائی حکیم محمد عمر  کے ساتھ حضرت کی زیارت کے لیے اسٹیشن گئے۔ وہاں بڑے بھائی نے اپنا اور مولانا کا  تعارف کروایا۔حضرت تھانوی نے مولانا کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بقول مولانا حضرت تھانوی کے سر پر ہاتھ پھیرنے کے کیف کو ایک عرصہ تک محسوس کرتے رہے۔

مدرسہ مظاہر العلوم میں تعلیم کے زمانے کی بات ہے کہ وہاں حضرت سہارنپوری کی غیر موجودگی میں حافظ عبد اللطیف صاحب ناظم ہوتے تھے۔ ایک دن جب کہ موسم سرد تھا، مولانا مدرسۂ قدیم سے دارالطلبہ  جا رہے تھے اور آپ نے چادر اس طرح اوڑھ رکھی تھی کہ چادر کا عرض قد کی لمبائی کو گھیر کر قدم بوسی کر رہا تھا۔ حافظ صاحب نے مولانا کو دیکھ لیا اور شام کو اپنے پاس بلا لیا اور فرمایا: چادر اوڑھنے کا یہ طریقہ کہاں سے لیا ہے؟ بقول مولانا چونکہ میری یہ کوشش خالص مولویانہ فیشن تھی اس لیے میں پانی پانی ہو کر رہ گیا۔[5]

مولاناکے  مشائخ

ترمیم

مولانا محمد علی صدیقی کے اکابر و مشائخ وہ تاریخ ساز شخصیات ہیں جنھوں نے دینِ اسلام اور کلمۂ حق کی بلندی  کے لیے ساری زندگی لگا دی۔ اُن کا ذکر مولاناکی وصیت  کی روشنی  نقل کیا جاتا ہے:

مولانا، حضرت  مولانا احمد علی لاہوری اور شیخ الحدیث مولانا ذکریا سے بیعت تھے۔ وہ  مولانا احمد علی لاہوری کے پاس  کم  رہے تاہم انھیں حضرت مولانا حسین مدنی اور حضرت مولانا محمد ذکریا کے پاس لگاتار دو دو ماہ شب و روز گزارنے اور اُن بزرگوں کی خلوت و جلوت  دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ اِن کے علاوہ جن بزرگوں کے فیضانِ نظر انھیں ملا اور  جن کی صحبت سے دین کی صحیح نعمت اور قلب کی صحت نصیب ہوئی  اُن کے نام درج ذیل ہیں:

مولانا انور شاہ کشمیری: اُن سے وہ دہلی میں مدرسہ امینیہ کے کتب  خانے میں 1931ء میں ملے اور استفادہ کیا۔

مولانا خلیل احمد سہارنپوری : اُن کی زیارت ہجرت سے پہلے کاندھلہ کے اسٹیشن پر کی۔جس سال انھوں نے مدینہ ہجرت  کی اسی سال مولانا کاندھلوی نے مظاہرالعلوم میں داخلہ لیا۔

مولانا اشرف علی تھانوی:  اُن  ؒکی صحبت سے مستفید ہوئے؛ سہارنپور سے ہی زیارت کے لیے تھانہ بھون چلے جاتے۔ ایک بار تو دیوبند سے تنِ تنہا پیدل چل کر صرف زیارت کے لیے تھانہ بھون جا پہنچے۔

مولانا شبیر احمد عثمانی :  مولانا کو اُن کی زیارت  پہلی بار  قیامِ دیوبند ہی میں ہو ئی۔ مولانا  شبیر احمد عثمانی ہی نے آپ کا پہلا نکاح پڑھایا تھا۔  مولانا  شبیر احمد عثمانی مولانا اشفاق الرحمانؒ کی دعوت پر کاندھلہ آئے تھے۔ نکاح کے دوسرے دن ا ُنہوں نے  مولوی موسی کے ساتھ مولانا   شبیر احمد عثمانی سے  تبرکا حدیث کا درس  بھی لیا۔

مفتی کفایت اللہؒ : اُن سے  آپ کی ملاقات1929 ء میں ہوئیِ چھ ماہ  تک اُن کے پاس مدرسہ امینیہ  میں رہے۔ 1948ء میں ایک بار پھر   اُن کی زیارت کی۔

حضرت مولانا عبد الصمد بہاری اور مولانا نور الدین بہاری سے 1930ء میں ملاقات کی۔

حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری: اُن کی زیارت سہارنپور میں حضرت شیخ الحدیث مولانا ذکریا کے یہاں ہوئی، کھانا بھی ساتھ کھایا۔

حضرت مولانا الیاس کاندھلوی: اُن کی زیارت تو بچپن سے رہی۔ دہلی کے قیام کے دوران مولانا ہر جمعرات کو  نظام الدین جایا کرتے۔ جس جمعرات ناغہ ہو جاتا تو  حضرت جی تراہا بہرام خان دہلی میں جمعہ کے  روز آ جاتے۔

مولانا کی سید سلیمان ندویسے  بھی ملاقات رہی اور کافی عرصہ  تک خط کتابت بھی رہی لیکن سب  سے اچھی اور طویل ملاقات فیصل آباد میں ایک تبلیغی اجتماع میں ہوئی۔ اس  میں سید سلیمان ندوی نے مولانا کی امامت میں نماز جمعہ ادا کی۔

دیگر  اہم علما اور مشائخ میں مولانا  ظفراحمد تھانوی، مولانا فخر الدین مراد آبادی،   مفتی محمد احسنؒ، مولانا عبد العزیز گوجرانوالوی شامل ہیں۔[6]

مولانا کا مسلک

ترمیم

مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی  فکر و نظر کے ا عتبار سے خالص اہل السنہ و الجماعت  سے تھے۔  مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں امامت کو نہ صرف مسلمانوں کی ضرورت  بلکہ اُن کا فرض  گردانتے کہ وہ اس  کے لیے اجتماعیت کا ڈھانچہ بنائیں۔ اُن کے خیال میں بہتر  یہ ہے کہ یہ ضرورت مسلمانوں میں سے اہل تقوی اور فتوی کے مشورے سے ہو۔ اگر شورائی نظم کی سعادت نہ مل سکے تو فوجی غلبہ سے بھی  یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ اجتماعی ضرورت کی۔ اُن  کا عقیدہ تھا کہ  نہ امام اللہ کی جانب سے مقرر ہوتا ہے اور نہ معصوم ہوتا ہے، امام کی بعثت اور عصمت عقیدۂ  ختم نبوت سے متصادم ہے۔ مولانا  پوری جماعتِ صحابہ کی عدالت کے قائل تھے اور سب کو مرحوم و مغفور اور رضی اللہ عنہم کا مصداق سمجھتے تھے۔ اُن کے مسلک کے مطابق  قرآن اگر نبوت کی صداقت کی علمی دلیل ہے تو صحابہ، کرام صداقت ِ نبوت کی عملی دلیل ہیں۔

وہ قرآن کو حرف بحرف منزل من اللہ، ہر تحریف سے پاک  اور کتابت اور روایت دونوں لحاظ سے متواتر سمجھتے، اس میں شک  کو ایمان سے محرومی گردانتے۔  مسلمانوں میں نزاعِ باہمی اور تفریق کی ہر صورت کو اللہ سبحانہ کی بہت بڑی نافرمانی سمجھتے۔ فقہائے مجتہدین او رائمۂ محدثین دونوں کا احترام کرتے اور علم و عمل میں دونوں سے استفادہ کرنے کے قائل تھے۔ اُن کی نظر میں محدثین اگر الفاظِ نبوت کے محافظ ہیں تو فقہائے کرام اُن کے معانی کے نگران ہیں۔ جیسے ائمۂ حدیث بہت ہیں مگر مشہور صرف چند ہیں، ایسے ہی ائمۂ مجتہدین بھی بہت ہیں مگر مشہور صرف چھ ہیں۔ فقہ حنفی کو دوسرے فقہوں کے مقابلہ میں اجتماعی فکر کا نتیجہ سمجھتے، اُن کے نزدیک حنفی ہونے کا مطلب یہ تھا کہ انھیں فہمِ اسلام کی غرض سے قرآن دانی اور سنت شناسی میں اپنی سمجھ پر نہیں بلکہ امام  ابوحنیفہؒ، امام ابو یوسفاور امام محمدؒ کی  فہم و بصیرت پر بھرپور اعتماد ہے۔اُن کے خیال میں حنفی ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ محدثینِ کرام کے دامانِ احترام کو ہاتھ لگایا جائے، دوسرے مجتہدین میں سے کسی درجہ میں  سوئے ادب کیا جائے۔ وہ نسبتِ صوفیا کو بہت بڑی نعمت سمجھتے۔[7]

مولانا سیالکوٹ میں

ترمیم

مولانا محمد علی کاندھلویکا سیالکوٹ آنے  اور پھر یہیں قیام کر لینے کا ایک پس منظر ہے جوانہوں نے اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات "میرے ماہ و سال" میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ  یہاں اُس پس منظر سے متعلق ضروری باتوں کا ذکر کروں:

1929ء میں مولانا دیوبند میں تھے کہ جمعیت علمائے ہند نے انگریز کے خلاف کانگریس کی تحریک  میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ جمعیت کے امروہہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ سول نافرمانی کی اس تحریک کے سلسلہ میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے جامع مسجد دیوبند میں ایک جلسہ  میں پُر جوش تقریر کی جسے سن کر مولانا محمد علی صدیقؒی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس تحریک میں حصہ لیں گے۔ یوں وہ حضرت مدنی کے سیاسی سفر میں ہم رکاب ہو گئے اور پورا ایک ماہ حضرت مدنی کے ساتھ گزارا۔ پھر والدۂ محترمہ سے اجازت لے کر 1930 میں دہلی آ گئے اور دفعہ 144 کی موجودگی کے باوجود کمپنی باغ میں جلسہ منعقد کیا، گرفتار ہوئے اور دہلی،  لاہور اور ملتان جیل میں رہے۔ مارچ 1931 میں رہائی ہوئی۔ اس عرصے میں حضرت مولانا کو پنجاب کے علما اور سیاسی لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا اور آپ کے ذہن میں اس علاقے میں دین کا کام کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔

25 نومبر 1931 جمعہ کا دن مولانا مجلس ِ احرار کی کشمیر ایجیٹیشن کے سلسلہ میں جامع مسجد دہلی سے لاہور  کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں آ کر ایک جلسہ میں تقریر کی جس کی صدارت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کر رہے تھے۔ اگلے روز سیالکوٹ آئے۔ یہاں مختلف مقامات پر تقاریر کیں۔ صرف رام تلائی میں 13 تقریریں کیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے گرفتاری سے بچتے رہے،      یہاں تک کہ گرفتار ہو  گئے اور آپ کو اڑھائی سال جیل کی سزا دی گئی۔ سیالکوٹ جیل میں مقامی لوگوں، علما، سیاسی ورکروں اور دانشوروں سے میل جول کا مزید موقع ملا اور یہاں کے مذہبی اور فکری رویوں سے آگہی ہوئی تو دل میں یہ بات پختہ ہو گئی کہ دین کا کام اسی علاقے میں کریں گے۔

مارچ 1934ء میں مولانا  جیل سے رہا ہو کر واپس کاندہلہ پہنچے اور اپنی والدہ کی حالت دیکھی تو یہ سوچ غالب آنے لگی کہ فکرِ معاش کی طرف توجہ کی جائے تا کہ والدۂ محترمہ کی خدمت کی جا سکے۔اِنہی دنوں سیالکوٹ جیل کے ایک قریبی ساتھی  اور مولانا کے مداح ڈاکٹر فیروز الدین صاحب دہلی آئے اور انھوں نے مولانا کو بذریعہ خط اطلاع کر کے وہیں بلا لیااور پھر ایک دلچسپ ترکیب سے مولانا کو سیالکوٹ لے آئے۔ یہ واقعہ مولانا کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:

"ڈاکٹر فیر وز الدین کا چار روز قیام  تھا۔ چار روز اُن کے ساتھ رہا۔ 29 تاریخ کو ان کی روانگی تھی۔ رات کو وہ بمبے ایکسپریس سے جانے والے تھے۔ میں ان کو اسٹیشن روانہ کرنے گیا۔ اسٹیشن پر میں  نے  پلیٹ فارم ٹکٹ لے لیا۔ اُن کی مشایعت کی خاطر گاڑی چلنے تک بیٹھ گیا۔ گاڑی نے چلنے کا وسل کیا۔ میں نے اُترنے کی کوشش کی، مجھے یہ کہہ کر بٹھا لیا کہ اس گاڑی کے چلنے میں دیر ہے۔ بالآخر میں اُترنے لگا تو کہنے لگے: ٹھہرو ٹھہرو۔۔۔گاڑی تیز ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ چلو اگلے اسٹیشن پر اُتر جاؤں گا۔ اسٹیشن آیا، میں نے اُترنے کی کوشش کی لیکن مجھے یہ کہہ کر روک لیا کہ ٹھہرو جی، گاڑی کافی ٹھہرے گی۔گاڑی پھر چل دی۔ اب انھوں نے راز کھولا کہ میں نے آپ کا ٹکٹ لے لیا ہے۔ اب میں پریشان ہوا۔ میں نے کہا کہ میں پھر آؤں گا۔ ابھی میرے حالات اچھے نہیں ہیں۔ بولے کہ کیا حالات ہیں اور کیا چیز رکاوٹ ہے؟ میں  نے کہا کہ میری والدہ بڑی عسرت اور تنگی میں زندگی گزار رہی ہیں۔ بولے فکر نہ کیجئے کہ اس کا انتظام ہو جائے گا۔ بالفعل میں اُن کو دو سو روپیہ کا منی آرڈر آپ کی جانب سے روانہ کر آیا ہوں۔ اب میں چپ ہو گیا"۔[8]

سیالکوٹ  میں خدمت دین

ترمیم

سیالکوٹ آنے کے بعدمولانا کا قیام کچھ عرصہ تو ڈاکٹر فیروز الدین صاحب  کے گھر  میں رہا، جس کے دوران مطالعہ کے علاوہ یہاں مختلف مسالک کے علما سے ملاقاتیں رہیں جن میں مولانا غلام فریدؒ، مولانا ابراہیمؒ، مولانا احمد دینؒ اور مولانا یوسفسرِفہرست تھے۔

12 اگست 1934ء کو مولانا نے مولانا غلام فریدؒ کے مشورے سے ائمۂ         مساجد کے بچوں کے لیے قصبہ چٹھی شیخاں میں فلاحِ دین و دنیا کے نام سے مدرسہ قائم کیا۔ مولانا یہاں رائج  طریقے سے چندہ جمع کرنے کو ناپسند فرماتے تھے اس لیے یہ وقت بڑی تنگی میں گذرا۔ مولانا اور پندرہ طلبہ کا گزارا ایک آنہ سیر  کے حساب سے خریدی گئی سوکھی روٹیوں کو چھاجھ میں بھگو کر کھانے پر تھا۔

1935ء میں ڈاکٹر فیروز الدین نے خادم  علی روڈ پر ½ کنال زمین خریدی اور اس میں مدرسہ کے لیے عارضی طور پر چار کمرے بنا دیے اور پھر مدرسہ فلاحِ  دین و دنیا کو یہاں منتقل کر دیا گیا۔ شہر میں  آجانے کی وجہ سے اور حاجی محمد علی ایگزیکٹو انجینئر کی مسجد واقع ایبٹ  روڈ میں جمعہ پڑھانے کی وجہ سے مولانا کا یہاں تعارف اور شہرت بڑھنے لگی اور عام تعلیم یافتہ طبقہ مولانا کے قریب ہونے لگا۔

سیالکوٹ شہر میں اُس وقت کی مشہور کاروباری اور سماجی شخصیت حاجی شہاب الدین نے  دارلعلوم  الشہابیہ کے نام سے ایک دینی درسگا ہ  کی بنیاد رکھی۔ حاجی شہاب الدین کے حاجی محمد علی ایگزیکٹو انجینئر سے تعلقات تھے اور موخر الذکر  مولانا کے مداح بن چکے تھے۔   14 فروری 1936 کو مولانا اور حاجی شہاب الدین کے درمیان میں   دارلعلوم الشہابیہ  میں کام  کرنے کے سلسلہ میں بڑی پُرمغز اور دلچسپ گفتگو ہوئی جس میں دہلی سے آئے ہوئے حاجی شہاب الدین کے ایک سمدھی بھی شامل ہو گئے۔  گفتگو کے دوران میں جب    حاجی شہاب الدین نے مشاہرے کی بات کی تا مولانا کا جواب تھا:  میں دین فروش نہیں کہ مشاہرہ لے کر کام کروں، میں تا ایک ادنٰی داعی ہوں اور داعی سائل نہیں ہوتا۔ حاجی شہاب الدین جہاں دیدہ اور مردام شناس شخصیت، اسی ملاقات میں دارلعلوم مولانا ے سپرد کر دیا  اور عمر بھر مولانا کے کام میں کوئی مداخلت نہ کی۔مولانا محمد علی صدیقی کاندہلوی اُسی روز یعنی 14 فروری 1936 کو رات دس بجے تک مع سامان دار العلوم الشہابیہ تشریف  لے آئے اور پھر دنیا سے رحلت تک یعنی 16 دسمبر 1992 تک تقریباً 57 سال یہیں دین کی خدمت سر انجام دیدتے رہے۔  مولانا کے اندر خدمتِ دین، اخلاص اور لگن اس قدر رچ بس گئی تھی کہ 14 فروری کو آپ رات دس بجے دار العلوم الشہابیہ میں قدم رنجہ فرماتے ہیں اور اگلے ہی روز یعنی 15 فروری 1936 کو درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں جس میں ہر مکتبۂفکر مثلا بریلوی، شیعہ، اہل حدیث، چکڑالوی اور مرزائی شامل ہوتے ہیں اور سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔ ایک 26 سالہ نوجوان  جو علم، مطالعہ، ذوق، گہرائی اور صحبت کے اعتبار سے ایک بحرِ بیکراں  تھا  کے لیے مشکلات تو پیدا ہونا ہی تھیں؛ چنانچہ درسِ قرآن کے اس سلسلسہ کے نتیجہ میں مولانا کے خلاف ایک طوفان بپا ہو گیا جس کے بڑے اسباب میں حسد، ذاتی وگروہی مفادات، ممکنہ سیاسی ردو بدل کا خوف بھی شامل تھا۔

مولانا کی تصانیف

ترمیم

حضرت مولانا کی تصانیف کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں؛ مطبوعہ و غیر مطبوعہ۔ یہاں ان کی چنداہم تصانیف اور تحریروں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:

مطبوعہ تصانیف

ترمیم
معالم القرآن
ترمیم

یہ مولانا کی تحریر کردہ تفسیرِ قرآن کریم ہے جس کی تصنیف کا سلسلہ آپ نے 1974 میں شروع کیا اور تا دم واپسیں اس پر کام جاری تھا۔ آپ کی زندگی میں اس کی 12 جلدیں شائع ہو گئیں تھیں۔ معالم القرآن کی ہر جلد ایک پارے پر مشتمل ہے اور مولانا ہر جلد کے آغاز میں اصطلاحاتِ قرآنی اور شرعی و قانونی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ معالم القرآن کی چیدہ چیدہ خصوصیات میں اُس کا معاصرانہ اُسلوب، شرعی مسائل کی تنقیح، استنباط کے طریقوں کی تشریح، جدید قانونی مسائل کا شریعت کی روشنی میں تجزیہ قابلِ ذکر ہیں۔  راقم کے علم کے مطابق معالم القرآن پر کچھ لوگوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیقی مقالات بھی  تیار کیے ہیں جو پنجاب یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے علومِ اسلامیہ کے شعبوں کے زیرِ نگرانی لکھے گئے۔[9][10]

امام اعظم اور علم الحدیث
ترمیم

یہ کتاب امام ابوحنیفہ کے علم الحدیث میں حقیقی مقام کے تعین میں  معرکہ آرا کتب کی فہرست میں نمایاں ترین  ہے۔ بلکہ اُردو زبان میں اس نوعیت کی تحقیقی کاوش شاید ہی کوئی اور ہو۔  مولانا نے اِس کتاب کی تکمیل صرف 17 دنوں میں کی۔  کم وقت میں یہ کام سر انجام  دینے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا کہتے ہیں کہ   علم و فکر کی دنیا میں ہوتا یوں ہے کہ ایک تصنیفی خاکہ ذہن میں جنم لیتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی صورت مزید واضح ہوتی رہتی ہے اور اس کے مصادر و مراجع بھی متعین ہوتے رہتے ہیں،  جب کے انسان اپنی روزمرہ دیگر مصروفیات میں مشغول بھی رہتا ہے پھر کچھ وقت فراغت کا مل جاتا ہے تو تصنیف قرطاس پر منتقل ہو جاتی ہے۔ اِس عمل میں غیر معمولی  تیزی اُس وقت دکھائی دیتی ہے جب مصنف مخلص، صحبت یافتہ اور جذبہ قربانی سے معمور ہو۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مولانا کو یہ فرصت ملی تو انھوں نے اس کتاب کی تکمیل صرف 17 دنوں میں کر ڈالی۔[11]

نقوش زنداں
ترمیم

           1953 میں قادیانیوں کو غیر مسل قرار دینے کے لیے ملکی سطح پر ایک بہت بڑی تحریک کا آغاز ہوا۔ سیالکوٹ شہر میں دارلعلوم  الشہابیہ اس تحریک کا مرکز بنا اور قیادت مولانا نے کی۔ جلسے، جلوس، احتجاج اور مولانا کی شعلہ بیانی نے  حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں۔ اس تحریک کے دوران مولانا دو بار گرفتار ہوئے۔  اُسی زمانۂ اسیری  کے دوران مولانا نے   اپنے احباب، تلامذہ اور متعلقین کو  زندگی کے مختلف موضوعات پر دینی نقطۂ نظر سے تقریباً 39 خطوط لکھے، 313 صفحات پر مشتمل  یہ کتاب اُنہی خطوط کا مرقع ہے۔ [12][13]

اسلام کا نظام اذکار
ترمیم

317 صفحات پر مشتمل اس کتاب  میں قرآن  و سنت کے پیش کردہ اُصول اور قوانینِ فقاہت کی روشنی میں اس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ صرف نبی کریمﷺ کا بتایا ہوا نظامِ اذکار ہی ایسا نظام ہے جو صحیح معنی میں روحانی ارتقا  ءکا ذمہ دار ہے۔[14]

متفرق  مضامین اور کتابچے
ترمیم

علاوہ از ایں  مولانا کے  رشحاتِ قلم سے  کئی کتابچے اور دیگربے شمار تحریریں نکلیں اور زیورِ طبع سے آراستہ  بھی ہوئیں۔  اُن کے اپنے جاری کردہ ماہنامہ مجلے "رشاد" میں  راقم کے پاس موجود سال  1972–1973 کے  دوران میں شائع ہونے والے 7 شماروں  میں مختلف موضوعات پر 27 مضامین ہیں۔ سیالکوٹ کے قیام کے آغاز میں   مولانا کاندھلوی نے  ایک کتاب تاریخ الحدیث کے نام سے لکھی اور اس کو طبع بھی کروا یا، مذہبِ اہلِ سنت اور میرا مسلک کے نام سے کتابچے  لکھے جو اپنے وقت پر چھپتے رہے اور جن میں سے اکثرکا   نسخہ تلاش کرنا شاید اب  آسان نہ ہو۔ مولانا     دینی مدارس کے طلبہ کے لیے نصاب سازی میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور اس سلسلہ میں کئی ایک درسی کتابیں بھی تالیف کیں، اس باب میں ان کی عربی زبان سکھانے کے بارے میں   تصنیف کردہ کتابیں سرِ فہرست ہیں۔

غیر مطبوعہ تصانیف:

ترمیم
1۔ میرے ماہ و سال
ترمیم

یہ مولاناؒ کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ حضرت کی وفات کے فورا بعد جب راقم  نے ان کے کاغذات کی چھان بین کی تو پنسل سے لکھے ہوئے یہ اوراق ملے جس میں انھوں نے سال بہ سال اپنی زندگی کے متعلق بتایا  ہے۔  تلاش، بسیار کے بعد مجھے جو اوراق مل سکے وہ صرف 1943 تک کے ہیں۔ مسسلسل کوششوں کے با وصف1943کے بعد والے واقعات کا مواد مجھے نہیں مل سکا۔ تاہم میسر مواد کا مخطوطہ میرے پاس ہے اور میں اسے مولاناؒ کی چند ایک اور غیر مطبوعہ تحریروں کے ساتھ طبع کروانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔  اس کتاب میں  مولانا کا انداز  واقعے اور موقع محل کے اعتبار سے بہت ہی دلچسپ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اسلوب میں ایک خاص چاشنی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے  مولاناؒ کی زندگی کے ایسے گوشے بھی سامنے آتے ہیں جن کا اُن کے قریبی احباب کو بھی شاید علم نہ رہا ہو۔ بالخصوص مشکلات اور صبر آزما مراحل جن سے آپ کو گذرنا  پڑا۔شروع کے صفحات سے معلوم ہوتا ہے کہ "میرے ماہ و سال" کو مولاناؒنے 1980 میں تحریر کرنا شروع کیا تھا۔

2۔ قاضی ضیاء الدین سنائی اور اُن کا عہد
ترمیم

برصغیر پاک و ہند میں شریعت کے لیے جدو جہد کرنے والوں میں قاضی ضیاء الدین سنائیؒ کی شخصیت نمایاں ہے۔ آپ مولاناؒ کاندھلوی کے جدِ امجد بھی تھے۔ قاضی ضیاء الدین سنائیؒ کی شخصیت، افکار، جدوجہد، علمی مرتبے اور ردً بدعات میں جرأتِ رندانہ کے متعلق لیگل سائز کے اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ تقریبا 150 صفحات لکھے ہیں جو میری رائے میں کتابی شکل میں آتے آتے تین ساڑھے تین سو صفحات بن  جائیں گے۔

3۔ ترتيب أحاديث الجامع الصحيح للإمام البخاری وسردها مفصلة على أسامى الصحابة[15]
ترمیم

 26لیگل صفحات پر  مشتمل   ہاتھ سے لکھے ہوئے عربی زبان کے اس کتابچے میں  مولاناؒ نے بخاری شریف کی 184 صحابہ اور صحابیات سے مروی روایات کو ترتیب وار جمع کیا ہے۔ اس کتابچے کے آغاز میں مولاناؒ نے   اپنے اُن  شیوخ کا بھی ذکر کیا ہے جن سے انھوں نے  روایتِ حدیث کی اجازت لی ۔ کتاب کا تعارف کی بابت مولاناؒ لکھتے ہیں: ( ترجمہ)" یہ بخاری کی احادیث کی مفصل فہارس کی ایک قسم ہے جس کی ضرورت علومِ حدیث میں تحقیق کرنے والوں کو پڑتی ہے۔ اس کی ضرورت ان لوگوں کو بھی پڑتی ہے جو سیاست، معاشرت اور اخلاق کے موضوعات پر مقالات لکھتے ہیں"[16]



[2]

وفات

ترمیم

16 دیسمبر 1992 عیسوی  بروز بدھ بمطابق 20 جمادی  الثانی 1413 ہجری مولانا معمول کے مطابق   صبح 9بجے طلبہ کو پڑھا رہے تھے کہ آپ کی طبیعت خراب ہوئی، ہسپتال لے جایا گیا  تاہم وہ رضائے الہی سے اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی تدفین سیالکوٹ کے معروف قبرستان " بابل شہید" میں کی گئی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی۔ میرے ماہ و سال (مخطوط)۔ اس کا مخطوطہ راقم کے پاس ہے۔ ارادہ ہے کہ میسر مواد کو مولانا کی وصیت، خطوط اور دیگر چند تحریروں کے ساتھ طبع کروادیا جائے۔ 
  2. مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی ( مخطوط)۔ میرے ماہ وسال (مخطوط)۔ صفحہ: 9 
  3. مولانا محمد علی صديقي كاندھلوى۔ قاضی ضیا  ءالدین سنامی اور اُن کا عہد( مخطوط)۔ ( اس کتاب کا مخطوطہ راقم کے پاس ہے اور جلد زیورِ طبع سے آراستہ ہوگا)۔ صفحہ: 40۔ 60 
  4. مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی۔ میرے ماہ وسال (مخطوط)۔ صفحہ: 9، 10، 11، 12 
  5. مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی۔ میرے ماہ وسال (مخطوط)۔ صفحہ: متفرق صفحات۔ 
  6. مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی۔ وصیت نامہ مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی  (مخطوط)۔ یہ وصیت نامہ  مولانا نے 31 جنوری،  1990 عیسوی میں تحریر کیا۔ اِس میں  اُنہوں نے اپنے حالاتِ زندگی کا بھی   مختصرا ذکر کیا ہے۔اسے مولانا کی خود نوشت سوانح کے ساتھ طبع کروانے کا ارادہ ہے۔۔ صفحہ: 5۔ 6 
  7. مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی۔ وصیت نامہ (مخطوط)۔ صفحہ: 4۔5 
  8. مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی۔ میرے ماہ وسال( مخطوط)۔ صفحہ: 23 
  9. مولانا محمد علی صدیقی (1974 تا 1992)۔ معالم القرآن، جلد: 1 تا 12۔ سیالکوٹ: ادارہ تعلیماتِ قرآن 
  10. [مزید دیکھئے: https://besturdubooks.net/maalim-ul-quran/ مزید دیکھئے: https://besturdubooks.net/maalim-ul-quran/] تحقق من قيمة |url= (معاونت)  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  11. https://www.rekhta.org/ebooks/imam-e-aazam-aur-ilm-ul-hadees-maulana-muhammad-ali-siddiqui-kandhlawi-ebooks?lang=ur  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  12. مولانا محمد علی صدیقی (1962)۔ نقوشِ زنداں۔ رنگ پورہ روڈ سیالکوٹ: مکتبہ قاسمیہ 
  13. https://toobaa-elibrary.blogspot.com/2021/01/blog-post_22.html  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  14. مولانا محمد علی صدیقى (1990)۔ اسلام کا نظامِ اذکار۔ سیالکوٹ: دار العلوم الشہابیہ۔ صفحہ: 1 
  15. اس کتابچے کا مخطوطہ راقم کے پاس ہے 
  16. مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی۔ ترتيب أحاديث الجامع الصحيح للإمام البخاری وسردها مفصلة على أسامى الصحابة( مخطوط)۔ صفحہ: ۶