کہتے ہیں بہت پہلے راجستان جیسل میر میں مومل راٹھور نام کی شہزادی رہتی تھی اس نے ایک طلسمی محل بنایا تھا جس کا نام کاک محل تھا اور اس کے ساتھ اس کی سات خوبصورت بہنیں بھی رہتی تھیں مومل اپنی خوبصورتی خوش لباسی اور اپنے طلسمی کاک محل کی وجہ سے مشہور تھی ارد گرد کے راجا شہزادے اور امیر کبیر لوگ کاک محل کی اس افسرا کو مطیع کرنا چاہتے تھے مومل کی شرط تھی کہ جو کاک محل کے طلسمات کو توڑ کر مجھ تک پہنچے گا میں اس کی ہو جاؤنگی. کاک محل میں جس نے قدم رکھا وہ اس کی طلسماتی بھول بھلیاں میں ایسے کھو جاتا کہ پھر کبھی واپس نہیں لوٹتا اور ایسے کہیں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، پھر ایک دن رانو مندرہ سوڈا جو عمرکوٹ کا خوبصورت بہادر نوجوان شہزادہ ہوتا ہے جیسل میر دوستوں کے ساتھ شکار کھیلنے پہنچتا ہے وہاں رانو کاک محل کے بارے میں سنتا ہے اور کاک محل کو سر کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے اس کے دوست کاک محل کے جان لیوا طلسمات کی طرف دھیان لے جاتے ہیں مگر وہ ایک نہیں سنتا اور نکل پڑھتا ہے کاک محل کی طرف، رانا انتہائی زہین اور بہادر ہوتا ہے وہ کاک محل کے سارے طلسمات توڑ کر مومل تک پہنچ جاتا ہے، مومل رانوکی اس ذہانت و بہادری سے بیحد متاثر ہوتی ہے اور رانو کی بیوی بننا قبول کر لیتی ہے۔

Mound of Moomal-Ji-Mari Mathelo

رانو ایک رات کاک محل میں گزارتا ہے پھر صبح عمر کوٹ واپس آنے کے وعدے کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ یہاں سے انتظار کا ایک درد ناک سفر شروع ہوتا ہے۔مومل صبح رانو کو وداع کرکے رخصت کرتی ہے اور پھر خود اس کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے، شاہ عبدالطیف بھٹائی نے مومل کی اس کیفیت کو یوں بیان کیا کہ :

" میں بیٹھی ہوں رانوتمہاری راہ دیکھ رہی ہوں،کاش میرے جانے والے کی ان پگڈنڈیوں میں پھر سے گذر ہو، اے جانے والے میں مجبور ہوں کہ میری سانسیں بھی تم سے ہیں ورنہ تمھارے جیسے رانو تو بہت ہیں"


مومل فراق کی کیفیت میں کاک محل پھرتی رہتی تھی راتوں کو آہ و فغاں کرتی کہتی رہتی " رات آئی اور چلی بھی گئی مگر تم نہیں آئے، شبنم میں ساری رات کاک بھی روتی رہی "

رانا کے فراق میں مومل کو نہ کھانے کا کوئی ہوش رہتا تھا نہ پہننے کا اور نا ہی مومل کو نیند آتی تھی اور کاک محل بھی ویران ہوتا جا رہا تھا مومل بس رانا رانا کرتی رہتی، مومل کی بہنیں مومل کی یہ حالت دیکھ کر پریشان تھیں اور انھوں نے مومل کا دل بہلانے کے لیے ایک ترکیب سوچی مومل کی ایک بہن نے مردانہ لباس پہنا اور خود کو رانا بنا دیا اور مومل کے سامنے آگئی مومل اپنی بہن کو اس حلیے میں دیکھ کر ہنسنے لگی اور اپنے بہن سے محو گفتگو ہو گئی اور یونہی دونوں بہن ایک ہی بستر پر سو گئے، اتنے میں اسی رات رانا بھی آجاتا ہے رانا اندھیرے میں دیکھتا ہے کہ مومل کے ساتھ کوئی اور مرد ہے جبکہ وہ مومل کی بہن ہوتی ہے جو مردانہ حلیہ تھی، رانواس غلط فہمی میں کہ مومل نے مجھے دھوکا دیا اپنی کوہانی چھڑی مومل کے کمرے کے باہر رکھ کر چلا جاتا ہے، صبح جب مومل رانو کی چھڑی کو دیکھتی ہے تو سمجھ جاتی ہے کہ رات کو رانو آیا تھا اور اس نے میری بہن کو غیر مرد سمجھا اور چلا گیا۔ مومل کھانا پینا چھوڑ دیتی ہے اور کچھ دنوں میں رانو رانو کرتی مر جاتی ہے۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی مومل کی اس کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں :

رانو تمھارے راج میں مجھے چودہ چاند نظر آئے، ایک نوالہ بھی پیٹ میں نہیں اور نہ آنکھوں نے کھانا دیکھا، کوئی جا کر رانو سے کہہ دو، مومل آج رات مر گئی۔

حوالہ جات

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم